کامفہوم ایساعام بیان فرمایاجس سے حدیث کا قتل ِ عام ہوسکتاہے، سیرۃ النعمان میں مولانافرماتےہیں :
”درایت کامطلب یہ ہے کہ جب کوئی واقعہ بیان کیاجائے تواس پر غور کیاجائے کہ وہ طبیعت انسانی کے اقتضاء زمانہ کی خصوصیات، منسوب الیہ کے حالات اور دیگر عقلی کے ساتھ کیانسبت رکھتاہے۔ “
”اقتضائے طبیعت “وہی نیچر کا ترجمہ ہے۔ سرسیّد کابھی یہی خیال تھاکہ نیچر کےخلاف کوئی چیز مقبول نہیں ہوسکتی۔
اس میں درایت کامفہوم اس قدر آزاد کردیاگیا ہے کہ اس پر کوئی پابندی نہیں رہی۔ اقتضائے طبیعت کی حد ؟ اور اس اقتضاء کا معیار کیاہے ؟ اور عقلی قرائن کی تعیین کون کرے، کیسے کرے ؟ زمانہ کی خصوصیات نصوص کی راہ میں حائل ہوسکتی ہوں تو پرویزؔکےجرم پر بھی نظر ثانی ہوجانی چاہیے۔
عقل کو اس قدر وسیع اختیارات نہ قاضی عیسیٰ بن ابان نے دیے تھے نہ معتزلہ کویہ حوصلہ ہوا تھا۔ یہ گنوار کے ہاتھ کسوٹی اور پاگل کے قبضے میں تلوار دے دی گئی ہے، جوان کے جی میں آئے کریں، دین کاخدا حافظ
آگے بڑھنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ درایت کا مفہوم اور اہل علم کی زبان سے بھی سُن لیاجائے تاکہ آج کی درایت اور پرانی درایت میں فرق ظاہر ہوسکے۔
علم دراية الحديث: وهو علم باحث عن المعنى المفهوم من ألفاظ الحديث، وعن المراد منها مبنيا على قواعد العربية وضوابط الشريعة ومطابقا لأحوال النبي صلى اللّٰه عليه وسلم.( ابجدا لعلوم ۴۳۶ج۶، مفتاح السعادۃ ومصباح السیادۃ ) تاشکبری زادہ صاحب ِکشف الظنون، ا صول حدیث اور درایت حدیث کو ایک ہی فن تصور فرماتے ہیں (۳۶۶ ج۱) درایت حدیث میں حدیث کے مطلب اور مراد سے
|