اُن مصالح کو باور کرنامشکل ہوجاتاہے جو ایک پیغمبر اور پھر خاتم النبیین کے پیش ِ نظر ہوتے ہیں جن کی نبوّت پُوری دنیا کے لیےا ور قیامت تک کے لیے ہے پھرصحابہ کے ذہنی کوائف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت کے ساتھ ان کا تعلّق تقریباً اتناہی سمجھتے ہیں جس قدر خود آپ کی ذہنی کیفیت ہے۔
اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وقت کے ایک اچھے انسان تھے۔ نتیجۃً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی آپ اس معیار پررکھتے ہیں جس پر آپ اپنےخیال سے ایک اچھے آدمی کو پرکھ سکتےہیں لیکن مُسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرمعاملہ میں واجب الاتباع انسان سمجھتے ہیں۔ اس لیے آپ کے اور صحابہ رضوان اللہ اجمعین اور عامۃ المسلمین کے معیار میں بڑ افرق ہے۔ منکرین حدیث اور آج کے یورپ زدہ لوگوں کے ذہن اور ایک سچے مسلمان یا صحابہ رضی اللہ عنہم کےذہن میں یہی فرق ہے۔ آپ اپنی اور اپنے عیال واطفال کی ذمہ داری سے قاصر ہیں جب کہ وہ ساری دُنیا کی ذمہ داری پُوری کامیابی سے اپنے ذمے لیے ہوئے ہیں اور اسے انہوں نے صحیح طور پر پُورا کیا ہے۔
احادیث کی کثرت:۔
آئمہ حدیث اپنے مسائل کاذکر کرتے ہوئے اوراپنی کتابوں کے طریقہ انتخاب اور شرائطِ صحت کو بیان کرتے وقت عموماً لاکھوں احادیث کاذکرفرماتے ہیں۔ مثلاً
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخار ی کا انتخاب سات لاکھ (۷۰۰۰۰۰) احادیث سے فرمایا۔
امام احمد رحمہ اللہ نے مسند کا انتخاب تین لاکھ احادیث سےکیا۔
مسلم کا انتخاب تین لاکھ احادیث سے کیا گیا۔
ابوزرعہ رحمہ اللہ کوسات لاکھ احادیث یاد تھیں۔
اس قسم کی تصریحات سے عوام پر دواثرپڑتے ہیں۔
اوّل یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر نبوت کے بعد قریب قریب تئیس (۲۳) یاپچیس (۲۵) سال ہے۔ اس مختصر عرصہ میں ممکن نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر گفتگو فرما
|