ایک ایسے شخص کی طرح ہے جو ایک مضبوط مکان کونقب لگاناچاہتا ہے لیکن وہ مکان کے نہ اندرونی نقشہ سے واقف ہے نہ ہی وہ اس کی پیچ درپیچ راہوں سے آشنا ہے اس لیے وہ کبھی آتے گرفتار ہوتا ہے کبھی جاتے ہوئے۔ تاہم ان کے اس حوصلہ کی داد دینی چاہیے کہ پے درپے ناکامیوں کےباوجُودانہوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ گواس راہ میں ناکامی کیساتھ ندامت بھی ہمیشہ دامن گیررہی۔
ایک غیرمعقُول بات :۔
”پس یہ امربالکل واضح ہے کہ قرآن کا پڑھنا اور سمجھنا ایک دوآدمیوں کا مخصوص حق نہیں، قرآن سادہ اور آسان زبان میں ہے۔ اسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ یہ ایک ایساحق ہے جوہرمسلمان کودیاگیا ہے اورکوئی شخص خواہ کتنا ہی فاضل یاعالمی مقام کیوں نہ ہو وہ مُسلمان سےقرآن پڑھنے اورسمجھنے کا حق نہیں چھین سکتا“ اھ (بحوالہ منصب رسالت نمبر۲۴۸)
پھر فرماتے ہیں :
”اس دنیا میں چونکہ انسانی حالات اورمسائل بدلتے رہتےہیں، اس لیے اس بدلتی ہوئی دُنیا کے اندر مُستقل ناقابل تغیر وتبدل احکام وقوانین نہیں چل سکتے۔ قرآن مجید بھی اس عام قاعدے سے مستثنیٰ نہیں ہے“۔ (حوالہ مذکور)
ظاہر ہے یہ ارشادات اتنے اُونچے مقام سے ہورہے ہیں جہاں معقولیت اور دانش مندی کے سوا کوئی اُمید نہیں رکھی جاسکتی لیکن اگر قرآن کی تفسیر اور تشریح کا حق ہر آدمی کودے دیاجائے اور اُس کے لیے کوئی معیار علم نہ رکھاجائے توکیاقانون کے متعلّق بھی اسی کشادہ دلی سے اجازت دی جائے گی چونکہ قانون کا تعلق عامۃ الناس سے ہے اس لیے قانون کے فہم اور توجہ کا حق چند قانون دانوں کو نہیں دیا جاسکتا جیسے اس کے لیے معقول وجہ نہیں کہ چند بوریا نشین یاآئمہ مساجد قرآن فہمی اور تفسیر کے حق پر قابض ہوجائیں اسی طرح کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ چند وکیل یاجج قانون فہمی کے حق پر قابض ہوجائیں۔
|