”ظن حق کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ “
إِن نَّظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ ( الجاثیہ)
”ہمارا خیال ہے یقین نہیں “
إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ ( نجم )
”یہ لوگ ظن اورہوائے نفس کے تابع ہیں۔ “
غلطی کی اصل وجہ :۔
غلطی کی اصل وجہ ظن کا پنجابی زبان میں استعمال ہےا ور ان حضرات کی عربی زبان اوراس کےمحاورات سےناواقفیت آئمہ حدیث کی نظر میں ظنیت اس معنی سے ہے کہ حدیث کی صحت عقلی دلائل سے ثابت ہے عینی اور سمعی چیزنہیں بلکہ آئمہ حدیث نے رجال کے احوال اور قرائن سے استدلال فرماکر بحث ونظر عقل اور شعور سے احادیث کی صحت اور حجیت کوثابت فرمایاہے۔ یہ ایسی چیزنہیں ہے جسے نظر سے دیکھاجائے یاکانوں سے سناجائے بلکہ یہ علم ویقین عینی اور سمعی علم ویقین سے دوسرے مرتبہ پر ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ جوچیزیں ہماری نظر کے سامنےہیں یا ہم کانوں سے سنتے ہیں ان کا ہمیں علم اور یقین توہوجاتاہے لیکن قطعیت وہاں بھی محلِ نظر ہے۔ ستاروں کے حجم میں نظر کا فیصلہ درست نہیں۔ مرئیات اوراشباح میں نظر کی غلطی مسلمہ حقیقت ہے حالانکہ وہ اشیاء ہماری نظر کے سامنے ہیں، پہاڑوں کے سربفلک درخت جوبیسیوں گز فضا میں چلے گئے ہیں۔ دورسے جھاڑیاں محسوس ہوتےہیں جب عین الیقین یاعلم بالعیان میں بھی غلطی کی گنجائش ہے توقطعیت کاوُجود دنیا میں نادر ہی معلوم ہوتاہے۔
منکرین حدیث کے لیے دوراہیں رہ جاتی ہیں یاتو عام بنی آدم کی طرح ظنیات کو اخبار اورا حکام میں بھی قبول کریں یا پھر کسی ایسی دنیا میں چلے جائیں جہاں انہیں ظنیات سے سابقہ نہ پڑے اور ان کا ماحول جزم ویقین سے بھرپور ہو متواتر احادیث شاید سینکڑوں مل جائیں مگر قطعیات کا وجود اس دنیا میں بے حد کم ہے۔
شریعت اسلامیہ میں ظن کی اہمیّت:۔
عام دنیا کو جانے دیجیے، شریعت میں
|