Maktaba Wahhabi

185 - 191
گزری ہے وُ ہ آسانی سے یہ فیصلہ کرسکتےہیں کہ یہ کسی ذہین اور ذکی آدمی کا کام نہیں۔ اصولِ حدیث میں وسعت:۔ مقصودِکلام یہ ہے کہ انکارحجیّت حدیث کی بحث سرتا سر قلت مطالعہ کی پیداوار ہے۔ آئمہ حدیث نے ظرف وحال کےمُطابق کچھ اصول وضع فرمائے اور آنے والے لوگوں کے لیے راستہ کھلا چھوڑ دیاتاکہ وہ رجال اور اسانید پردیانت کی روشنی میں بحث کریں۔ جس حدیث پر اُنہیں شبہ ہو اسے ظاہر کریں اور اس کی سند پر بحث کریں اُسے درایت کی روشنی میں سمجھیں ا ور اس کے لیے اہل ِ علم کی طرف رُجوع کریں اگر تسکین نہ ہو توشبہات کواس حدیث تک محدود ترکھتے ہوئے توقف کریں البتہ بحث جاری رکھیں۔ لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا۔ مگرفن پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش یقیناً ایک ملحدانہ کوشش ہے۔ امت کے اعمال اور علمی خدمات کے ساتھ یہ وطیرہ احسان فراموشی ہے۔ ان کے علوم سے استفادہ کے بعد ان پر بدگمانی کواحسان فراموشی ہی سے تعبیر کیاجاسکتاہے۔ آج کے نوآموز اکتشافی محققین اگر سوچیں تواُنہیں یقین ہوگا کہ آج الٹا سیدھا جوکچھ کہایالکھا جارہا ہے یہ متقدمین کا فیضان ہے اور ان کی علمی مساعی کا نتیجہ ہے اس استفادہ کے بعد ان پر زبان درازی اچھے اخلاق کا مظاہرہ نہیں۔ مخالفین حدیث سے شکوہ :۔ مخالفین حدیث کے یورپ کیمپ سے ہمیں یہ شکوہ ہے کہ ان حضرات نے ہمیشہ خبط اور خلطِ مبحث کی کوشش کی۔ ان کا دعویٰ تویہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، اجتہادات، شرعاً حجت نہیں وُہ خدا کا پیغام (قرآن) تودے سکتے ہیں لیکن اس کی وضاحت کا ان کو حق نہیں اور اگر وہ اس پرعمل کریں تو وہ عمل اُمت کےلیےحجت نہیں، ا ُن کی صوابدید ان کی ذات تک محدود ہے ہم اس کی تعمیل کےمکلف نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس میں سند کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ جولوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ گفتگو فرماتے تھے ان پر بھی شرعاً اسے قبول کرنا ضروری نہ تھا لہذا اگر یہ احادیث کےذخائر تواتر ِ نقل سے بھی ہم تک پہنچ جائیں توبھی بلحاظ ِ اقوال رسول یہ حجتِ شرعی نہیں ہیں۔ حجت شرعی صرف پیغام کے الفاظ یعنی قرآن ہے اور
Flag Counter