آیت کےنزول اور وضو کی فرضیت میں آٹھ سال کےفرق کا ذکر پہلے علماء نے بھی فرمایاہے۔ ملاحظہ ہو۔ مفتاح السعادۃ۔ الاتفان فی علوم القرآن للسیوطی۔ ابجدالعلوم للنواب، کشف الظنون لچلپی وغیرہ میں ہے۔
ومثال الثانی ایة الوضوء انھا مدنیّة اجماعاً وفوضه کان بمکة مع فرض الصلوٰۃ وکایة الجمعة فانھا مدنیة والجمعة فرضت بمکة کذاقیل والحکمة فی ذٰلک تاکید حکم السابق بالآیة ( ابجدا لعلوم للنواب صدیق ۶۳۷ ج۲)
وضوکی آیت مدینہ میں نازل ہوئی اوروضو نمازسمیت مکْہ میں فرض ہوا۔ اسی طرح جمعہ مکہ معظمہ میں فرض ہوا تھالیکن سورۂ جمعہ مدینہ میں نازل ہوئی۔ ان حالات سےواضح ہوتاہے کہ اثباتِ حکم میں سنت پر اعتماد کیاگیا اور قرآن میں ا س کی تائید فرمادی گئی۔
۵۔ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ (پ۱۔ ۴ع)
قائم کرو نما زاور ادا کرو زکوٰۃ
نماز اور زکوٰۃ کا حکم قرآن میں بار بار آیاہے لیکن تعیّن اوقات، رکعات اور وظائف واوراد کی تفصیل قرآن مجید میں نہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ کے مختلف قسموں کے احوال میں نصاب کا تعیّن اور مقدارِ زکوۃ کی وضاحت قرآ ن میں نہیں۔ جن حضرات نے ان تفصیلات کو سنت سے الگ طے کرنے کی کوشش کی ہے و ہ اپنی کوشش میں بُری طرح ناکام ہوئے ہیں، اس لیے خود قرآن مجید حجّیت حدیث کا مطالبہ کررہاہے۔
اہل قرآن سے :۔
ادباً گزارش ہے کہ جہاں تک اسلام اوراس کی تعلیمات کا تعلّق ہے سنت کی حجیّت اور تسلیم ِ احادیث کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ تعلیمات اسلامی میں اس کی حیثیت ایک ایسے جز کی ہے جس کے انکارسے حقیقت ایمان میں فرق آجاتاہے۔ ا نکار نبوت اور انکار فرامین نبوت میں چنداں فرق نہیں۔ ایمان پیغمبر کے جسم پرنہیں لایاجاتا۔ ا س کے ارشادات پر ہی لایا
|