Maktaba Wahhabi

179 - 191
إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ۔ (پ۶۔ ۶ع) اور پاؤں ٹخنوں تک دھوڈالو۔  وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ۔ (پ۵۔ ۴ع) اگر بیماری کی وجہ سے پانی کا استعمال مُضر ہو یا حالت سفر ہو اورپیشاب یا پاخانہ یالمس کی وجہ سے وضوٹوٹ جائے اور پانی دستیاب نہ ہو سکےتوتیمم کےلیے پاکیزہ مٹی منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ اللہ تعالیٰ مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ اور اپنی نعمت کوپورا کرنا چاہتاہے تاکہ تم شکر کرو۔ اس آیت میں وضواور تیمم کی وضاحت کردی گئی ہے۔ و ضو اس سے پہلے موجودتھا۔ ۱۲ نبوی بوقت معراج نماز فرض ہوئی۔ وضو بھی اس وقت بتادیاگیا۔ چنانچہ آٹھ سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس ہدایت کےمطابق نماز ادا فرماتے رہے اور باوضو نماز ہوتی رہی۔ آٹھ سال کےبعد ۶ہجری میں سورۂ مائدہ نازل ہوئی۔ اس میں وضو کی ترتیب بتاکر آٹھ سال کے عمل کی تائید فرمادی گئی۔ آٹھ سال تک جوکچھ ہواسنت کی بناء پر ہواتھا۔ آٹھ سال بعد قرآن میں اس کی تائید فرمادی گئی۔ اگرحدیث حجت نہ تھی تو وضو کیوں کیاگیا اور ہوسکتاہے کہ اپنےمسلک کی پچ میں بے وضو نماز پڑھنے کوترجیح دی جائے۔ لیکن شاید عمل اس کےخلاف ہے۔ آیت کے دوسرے حصے میں تعلیم دی گئی ہے۔ ا س میں ہاتھوں کا ذکر آیاہے لیکن حد نہیں بتلائی گئی کہ آیا اس میں کلائی تک ہاتھ شامل ہوگا یا مرفقین تک یا بغل تک کوئی وضاحت بھی قبول کی جائے، اس کی بنیاد سنت پر ہوگی۔ قرآن اس میں خاموش ہے اور قرآن خود توجہ دلاتاہے۔ ا ن احکام کی عملی صُورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے معلوم ہوگی اور یہ حجیّت سنت کے لیے ایک اضطراری دعوت ہے۔
Flag Counter