امام مالک رحمہ اللہ اہل مدینہ کے عمل کوحجت سمجھتےتھے۔ ان کاخیال تھاکہ اہل مدینہ کا عمل سُنت سے ماخوذ ہے، آئمہ حدیث نے اس اُصول سے انکار فرمادیا۔ ملاحظہ ہو”محلیٰ“ اور ”احکام فی اصول الاحکام “ لابن حزم اور ’’اعلام الموقعین “اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا رسالہ”مذہب اہل المدینہ “بعض آئمہ کا خیال تھا کہ راوی کا فتویٰ اگر اس کی مرفوع روایت کےخلاف ہو تو اس کے فتوے کوروایت پر ترجیح دی جائے گی لیکن آئمہ حدیث نے تحقیق کےبعد فیصلہ فرمایا کہ اگر فتویٰ کی تائید کسی مرفوع حدیث سے نہ ہوتوفتویٰ کےلیے اور بھی احتمالات ہوسکتے ہیں۔ اس لیے صحیح یہی ہے کہ ترجیح روایت اور مرفوع صحیح حدیث کودی جائے۔
صحیح حدیث کی تعریف میں علماء کے مختلف اقوال ہیں جن کا تذکرہ الجزائری نے توجیہ النظر میں اور خطیب نے الکفایہ میں فرمایا ہے لیکن بالآخر صحیح حدیث کی یہ تعریف طےہوئی ”جسے عادل اور ضابط راوی روایت کرے اس میں نہ کوئی علت ہو اورنہ شذوذ ہو اور راوی کا مروی عنہ سے سماع ثابت ہو۔ “
غرض مختلف مسائل میں بتدریج فیصلہ ہوا۔ تدریج کا یہی مطلب ہے کہ مسئلہ بحث ونظر کے بعد کسی قطعی مرحلہ پر پہنچ جائے۔ اہل حدیث اورحدیث میں یہی طریق جاری رہا یہاں تک کہ اکثر مسائل میں بحث ونظر کی ضرورت رہی نہ گنجائش۔
آج بھی ہمارے پاس قرآن کا کوئی حکم اور سُنّت کا ایسا کوئی فیصلہ موجود نہیں کہ تنقیدِ ورایات واحادیث پر بحث و نظر کی راہیں بند ہو چکی ہیں۔ بلا شبہ فن متحرک ہے لیکن علماء نے ہر پہلو پر بحث وفکر کےبعد محسوس فرمایاکہ ضرورت کے مُطابق فن کی تکمیل ہوچکی۔ آج سے صدیوں بیشتر کے واقعات پر احتمالات اور امکان کے گھوڑے دوڑانا ٹھیک نہیں۔ اس سے بحث برائے بحث کے سواکچھ حاصل نہیں۔
صرف، نحو، معانی، بیان کابھی یہی حال ہے کہ قریب قریب یہ فن کافی حد تک مکمل ہیں۔ ان فنون پر بحث سے شارع نےنہیں روکا۔ لیکن واقعات نے بتایا کہ اس کی ضرورت نہیں۔
|