اس لیے اصولِ فقہ کو اصولِ عقلیہ سمجھنا کم فہمی ہے اورسادگی۔
ابن جوزی رحمہ اللہ علیہ فرماتےہیں : مَا أَحْسَنَ قَوْلَ الْقَائِلِ: إِذَا رَأَيْتَ الْحَدِيثَ يُبَايِنُ الْمَعْقُولَ أَوْ يُخَالِفُ الْمَنْقُولَ أَوْ يُنَاقِضُ الْأُصُولَ فَاعْلَمْ أَنَّهُ مَوْضُوعٌ۔ اھ ( تدریب شرح تقریب ۱۰۰)
ابوبکر بن طیب نےفرمایا، وضع کی یہ بھی نشانی ہے کہ وہ عقل کے خلاف ہو اور اس کی کوئی توجیہ نہ ہوسکے اور جوحدیث حس اور مشاہدہ کے خلاف ہووہ بھی موضوع ہو گی، قرآن مجید اور سنت متواتر کےخلاف ہو، یہ بھی موضوع ہوگی اور جواجماع کےخلاف ہواس کا بھی یہی حکم ہے۔ اھ ( تدریب الراوی ص ۹۹) سخاوی نے بھی فتح المغیث میں اس کے قریب قریب ارشادفرمایا ہے۔
مولانااصلاحی اور مودودی صاحب کے مضامین میں نقدِ حدیث کےمتعلق جن نکات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، محدثین کی نظر اس سے بُہت آگے ہے۔ یہ کس مسخرے نے آپ حضرات کو بتایا کہ محدثین نے اصول درایت کونظرانداز کردیا یا اُن کا نقطۂ نظر صرف اخباری تھا۔ پورے وثوق سے عرض کروں گا کہ نقدِ حدیث کےمتعلق فقہاء عراق نے عقل کی روشنی میں آج تک کوئی اصل وضع نہیں کیا۔ یہ مولانا شبلی مرحوم اور مولانا مودودی کا ایک ایساخواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں۔ یہ ایک ایسا تخیل ہے جس کا نفس الامر سے کوئی تعلق نہیں۔ تنقید حدیث کےمتعلق آج تک جو کچھ ہے عقلی ہویانقلی، روایت کے نقطہ ٔ نظر سے ہو یا درایت کے لحاظ سے، سب آئمہ حدیث کی مساعی کا مرہون منت ہے، یہ میراہی خیال نہیں بلکہ آج سے چندسال قبل مولانا عبدالجبار عمرپوری، مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، مولانا عبدالسلام مبارک پوری رحمہ اللہ نے بھی پوری آواز سے اس کا اعلان کیا۔ یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ ان کے اتباع واحفاد یہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہیں لیکن خاموشی پر مجبور ہیں۔ اناللہ واناالیہ رجعون۔
اصول اور قیاس میں آئمہ عراق کی کوششیں قابل صد ہزار تحسین ہیں، ان کی موشگافیاں علمی حلقوں سے داد حاصل کرچکی ہیں لیکن معلوم ہے کہ وہ عقل کے اصول نہیں بلکہ
|