إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا۔ (۳۶۔ ۳۳)
کسی مومن مردا ور عورت کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی صوابدیدہ اور پسندکواس امرمیں مداخلت کا موقع دیں اور اگر کسی نے ا س کی خلاف ورزی کی تواس کی گمراہی بالکل ظاہر ہے
۱۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی قبولیت شرط ایمان قرار پائی ہے۔
۲۔ فیصلہ کے بعد ذاتی پسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
۳۔ اوراگر کوئی اپنی پسند پراصرار کرے اور صوابدید کےمُطابق فیصلہ کی سعی کرے تواس کےلیے ضلال مبین کی وعید موجُود ہے۔
۴۔ اس قسم کےاختیار سے دستبرداری شرطِ ایمان قرارپائی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور اجتہاد کی حجیّت اس آیت سے بالکل واضح ہے اور اہلحدیث کا اس سے زیادہ کوئی جُرم نہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کواس سے پست نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہرصاحب امر کا حکم اپنے حلقہ ٔ اثر میں حجت تصورکیا جائے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معقول اور واجبی حق سے محروم رکھاجائے۔ کیوں ؟؎
ور حریتم تمام کہ ایں چہ بوالعجمی است
۵۔ لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّـهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ(۶۳:۲۴)
رسول کی دعوت اور پکارکوتم اپنی باہمی پکارو دعوت کی طرح مت سمجھو بلکہ رسول کی پکار واجب القبول ہے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کوخوب جانتا ہے جودوسروں کی آڑ میں حیلوں اور بہانوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے بچنا چاہتے ہیں۔ جولوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کی مخالفت کرتے ہیں اُنہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں آزمائش یادردناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
|