نہیں تو پھرا لفاظ کی حمایت سے کیافائدہ ؟ الفاظ کی حفاظت سے معانی اور مقاصد کی حفاظت تونہیں ہوگی۔
۶۔ اس کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنا ہے کہ آیات لغت کی حفاظت حدیث سےزیادہ کی گئی ہے آیا قرآن کی زبان ( عربی) انقلابات کی زد سے اب تک محفوظ ہےان گزارشات پر دانشمندانہ اور دیانتدارانہ غور کرنے کے بعدسنت کی حجیّت واضح ہوجائے گی اور یہ قرآن ہی کا تقاضا ہے اور قرآن ہی کا منشا۔
۱۰۔ فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا۔ (۱۹:۹۷)
ہم نے قرآن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر آسان کردیاہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشارت و انذار دونوں مقاصد پُواراکرسکیں۔
الف: ””لسانٌ“سےمراد عربی زبا ن ہو یاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےارشادات بصورت سنت و حدیث دونوں احتمال ہوسکتےہیں۔ میری ناقص رائے میں دوسرااحتمال راجح ہے۔ صرف عربی زبان مراد لینا ٹھیک نہیں۔ یہاں لسان کی اضافت ”ک“ خطاب کی طرف سے ہے، معلوم ہے کہ عربی زبان لاکھوں آدمی بولتےہیں۔ اس تخصیص اور اضافت سے کیافائدہ ؟ عربی زبان میں قرآن کا نزول ایک دوسری خوبی ہے جس کا تذکرہ قرآن نے دوسرے مقامات میں فرمایاہے۔
اگر ”لسانٌ“سےمراد یہاں عربی زبان لی جائے تو لِتُبْشِرَ میں لام تعلیل بالکل بے کار ہوگا۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت نہ رہے گی بلکہ ہر اہل زبان ایسا کرسکتاہے اسی طرح آیت کی ترتیب میں کوئی خاص فائدہ نہ ہوگا۔
ب۔ قرآن کی سہولت اور آسانی کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان کے ساتھ مقید فرمانے کے بعد اس کی علت کے طور پر دو چیزیں ذکر فرمائی ہیں۔ (۱)اہلِ تقویٰ کےلیے بشارت (۲) جدال پسند اور خصومت پرست لوگوں کوڈرانا، معلوم ہے کہ یہ مقصد صرف الفاظ کی تلاوت سے حاصل نہیں ہوسکتا، اس کے لیے افہام و تفہیم، وضاحت اور تشریح ضروری ہے اورا س سلسلہ میں عرب زبان دان اور عجمی برابر ہیں۔
|