اب اگر یہ تشریح اور وضاحت شرعاً حجت نہیں تو انما سےحصر اوراس پر بشارت وانذارکاترتب، بےمقصد ہوں گے۔ نبوت اور اس کےمقاصدکی پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی۔ ہمارے ان مفکرین قرآن نے شاید قرآن عزیز کوکبھی سوچ کر نہیں پڑھا، أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ
۱۱۔ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ۔ (۵:۱۰۴)
جب تم ان کو اللہ کی وحی اور اس کے رسول کی طرف دعوت دیتے ہو وہ کہتے ہیں ہمیں رسوم وعادات کا فی ہیں جواپنے بزرگوں سے ہمیں وراثت میں ملی ہیں گووُہ بزرگ علم وہدایت سےیکسر خالی ہوں۔
” ِالَى الرَّسُولِ “بصُورت عطف مذکور ہواہے اور معلوم ہےکہ معطوف اور معطوف علیہ عام حالات میں دونوں مستقل ہوتے ہیں اور مغائر بالذات۔ جب ہم کہتےہیں کہ ہمارے پاس روپیہ بھی ہے اور زمین بھی، تواس مثال میں روپیہ اور زمین ایک نہیں ہوسکتے بلکہ دونوں الگ الگ ہوں گے۔
مولوی عبداللہ چکڑالوی آنجہانی ”الرَّسُولِ“سے مرادبھی قرآن ہی لیتےتھے۔ میری رائے میں یہ جہل عظیم ہے اور عربی زبان سے ناواقفیت پر مبنی۔ اس لیے یہاں دعوت ” ِالَى الرَّسُولِ “کامطلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف دعوت کے سواکچھ نہیں ہوسکتااور یہ دونوں بطاہر دومستقل چیزیں ہیں اور دونوں کی حیثیّت مساوی ہے۔
( اوتیت القراٰن ومثله معه) الرسول دعوت آسمانی کا ایک مستقل رکن ہے۔ جب ہر سنتِ صالحہ قابل اتباع ہے توسنتِ رسُول کو اس سے کیونکر محروم رکھاجائے۔ ا سے تو اور زیادہ واجب الاطاعت ہونا چاہیے۔
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَ
جولوگ اللہ تعالیٰ اور اس کےرسولوں سےمنکرہیں وہ چاہتےہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں میں تفریق قائم رکھیں وہ کہتےہیں
|