Maktaba Wahhabi

105 - 191
مسائل ذکرکئےہیں جن میں اہل مدینہ کاعمل سنت کےخلاف ہے یا موالک ان سنن کےپابندنہیں جن کا مدینہ منورہ میں عرصہ تک رواج رہا۔ اب دوہی رائیں ہوسکتی ہیں یامالک خود اہل مدینہ کے عمل کوحجت نہیں سمجھتےتھے یا اہلِ مدینہ کا عمل سنت کےمطابق نہ تھا۔ ۸)ممالک اور شہروں کے اعمال اور عادات میں حکومت کوجہاں تک دخل ہے اس کا انکارنہیں کیاجاسکتا۔ مدینہ میں جہاں خلفائےراشدین اور آئمہ ہدیٰ کا اثررہا وہاں فاسق وفاجر حکام بھی اثررہا۔ حافظ ابن حزم لکھتے ہیں کہ ”زمانہ خیر کےبعد مدینہ میں عمروبن سعید، حجاج بن یوسف، طارق، خالد بن عبداللہ، قسری، عبدالرحمٰن بن ضحاک، عثمان بن حیان مری ایسے فاسق اور فاجر بادشاہوں کا دوررہا اور ان کے اخلاقی اثرات اور وحشت خیزبدعات سے بھی مدینۃ الرسول متاثر ہوا ( الاحکام ) امام مالک رحمہ اللہ کے زمانہ میں مدینہ اس ملی جلی تہذیب کا مظہر تھا۔ معلوم نہیں مولانا موالک کے نقطہ ٔ نظر کوکہاں تک قابل لحاظ سمجھتے ہیں۔ ۹) ایک صدی کےمختلف اثرات کےبعد مولانااہل مدینہ کےعمل کو اس وہم یا ظن کی بناء پر سنت کی اساس قراردیتےہیں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے ماخوذ ہوگا اور سنت ِ صحیحہ سے اس لیے گھبراتے ہیں کہ خبر واحد ظنی ہے۔ اوہام وظنون کوعلوم پر ترجیح ہماری سمجھ میں نہیں آئی اور نہ ہی مولانا ایسے فہیم آدمی سے اس کی امید ہونی چاہیے۔ صلت علی الاسد وبلت عن النقد کی مثال اس سے زیادہ اور کیاہوگی۔ مولانا نے کس سادگی سے فرمایا: ”اس طریقہ سےمعلوم شدہ سنت کواُس علم سنت پرترجیح دی گئی جو اخبار آحادسے حاصل ہو۔ “ مدینہ کے نام پرجذباتی اپیل تو کی جاسکتی ہے، علم وروایت کی دنیامیں اُس کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ ۱۰)حقیقت یہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ خود بھی اہل مدینہ کویہ اہمیّت نہیں دیتے جو اُسے
Flag Counter