مولانادے رہے ہیں۔ وُہ سنت صحیحہ کو اہل مدینہ کےعمل سے ردکرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اگر ان کی نظرمیں یہ عمل اس قدراہم ہوتاتووہ ہارون الرشید مؤطا مالک رحمہ اللہ کےمتعلق پیش کش فوراً منظورفرمالیتے۔
انه شاورمالکافی ان یعلق المؤطافی الکعبة ویحمل الناس علی مافیه فقال لاتفعل فان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اختلفوا فی الفروع وتفرقوا فی البلدان وکل سنة مضت قالَ وقفک اللہ یا اباعبداللہ ( حجۃ اللہ ج۱ص۱۱۶، اعلام الموقعین ج۲ص۲۹۶، مفتاح السعادۃ تاشبکری زادہ ۹۲۶ھ ج۲ص۸۷)
خلیفہ ہارون نے امام مالک رحمہ اللہ سےمشورہ کیا کہ مؤطاکو ملک کا قانون قرار دے کر کعبہ میں لٹکادیاجائے تاکہ لوگ اس کے اتباع پرمجبور ہوں، امام مالک رحمہ اللہ نےفرمایا، صحابہ رضی اللہ عنہم کا فروع میں اختلاف تھا اور وہ مختلف ممالک میں پھیل گئے۔ جو کچھ ان سےمنقول ہے سب سُنّت ہے ہارون نےمعاملہ سمجھ کرفرمایا، اللہ تمہیں خیرکی توفیق دے۔
امام مالک رحمہ اللہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کےعلوم کو سنت سمجھتےہیں۔ علم مدینہ میں ہو یاکسی دُوسرے شہرمیں وہ اہل ِ مدینہ کے علم کو سُنّت کی بنیاد نہیں سمجھتے، مؤطا میں عملِ اہل مدینہ کا ذکر ترجیح اور تائید کےلیےہے، اصل دلیل وہاں بھی سُنّت ہی ہے جس کا ثبوت اُسی طریق سے ہوگاجو محدثین میں متعارف ہے۔ مولانا نے جس انداز سے اہل مدینہ کے عمل کا ذکر فرمایا ہے متاخرین موالک یامولانا ایسے وکلاء جومقام چاہیں اُسے عنایت فرمائیں، امام مالک رحمہ اللہ پر ا س کی ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی۔ امام قطعاً اس کےحق میں نہیں کہ اہل مدینہ کےعمل سے سنتِ صحیحہ کورد کیاجائے۔ یہ ایسی وکالت ہے جسے مؤکل پسند نہیں کرتا۔
۱۱)بقول امام ابن حزم تین سو کے قریب اہل علم مدینہ سے کوفہ اور ان کے اطراف میں آباد ہوگئے اور اسی کے پس وپیش شام میں، اور ان کی یہ ہجرت محض دینی اور تبلیغی ضرورتوں
|