کےپیش نظر تھی، اس ایثار کی یہ کتنی سخت سزا ہوگئی کہ ان کا عمل نہ حجت ہے نہ سنت کےلیے اساس، اور بعض دُوسرے حضرات جودینی یا دنیوی ضرورتوں کے ماتحت مدینہ میں آباد ہوگئے اُن کے اعمال سنت نبوی کےلیے کسوٹی قرارپائے۔ ا گر وطنی عصبیت کا دین میں یہ مقام ہوتو علم ودانش کی کیاقدروقیمت رہ گئی
؎ فماحب الدیار شققن قلبی
ولٰکن حب من سکن الدیارا
۱۲)اگرانسانی اعمال کومحض شرف وطنیت کی بناء پر احادیث صحیحہ اور اخبار آحاد پر بے اعتمادی کاذریعہ بنایاجائے تو انکارحدیث کے لیے ایک خطرناک باب کھل جائے گا۔ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ۔
۱۳)اس سے توانکار نہیں کیاجاسکتاکہ غیر مدنی صحابہ کے پاس بھی علوم نبویہ کے ذخائر موجود تھے اور ان میں بعض ایسے بھی تھے جو اہلِ مدینہ کے پاس نہیں تھے۔ اسی صُورت میں اگر حدیث پر عمل کیا جائے تو اہل مدینہ کے عمل کی حیثیت کیارہی ؟ اور اگر اہلِ مدینہ کے عمل کو ترجیح دی جائے تومنکرین سُنّت نے آخر کیاجُرم کیا؟ اس اصُول سے حجّیت کے مسلک کو مدد ملی یا انکار حدیث کی تائید ہوئی ؟ اس کافیصلہ مولانا ہی فرماسکتے ہیں۔
۱۴)امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطا میں چند مقامات پر اہل ِ مدینہ کے عمل کا ذکر فرمایا ہے ان کا اپنا اندازترجیح کی حد تک ہے، الزام وحجت نہیں بلکہ بعض مقامات پر تو یہ تذکرہ صرف اظہار ِ واقعہ کے طور پر آیا ہے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ مؤطا کی سرکاری حیثیت کے متعلق ہارون الرشید کی تجویز اور امام مالک رحمہ اللہ کے انکار کے بعد فرماتےہیں :۔
وھٰذایدل علیٰ ان عمل اھل المدینة لیس عندہٗ حجة لجمیع الامة و انما ھواختیار منه لما رای علیه العمل ولم یقل قط فی مؤطاہ ولاغیرہ لایجوز العمل بغیرہ بل یخبر اخبارامجرداً ان ھٰذا عمل اھل بلدہ فانه رضی اللّٰہ
|