بلحاظ نبوت نہ تھا۔
۱۴۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ (۱۔ ۹۴:۴)
ہم نے تیرا سینہ کھول دیااور تمہارا تمام تر بوجھ اتاردیا اور تیرے ذکر کو چاردانگ عالم میں پھیلادیا۔ آسانیاں اورمشکلات اس دنیا میں آتی جاتی رہیں گی۔ آپ اپنے فرصت کےاوقات میں پوری توجہ سے بارگاہ ایزدی میں حاضری دیں۔
اس سورۃ میں متعدد نعمتوں کوبصیغہ استفہام ثابت فرمایاہے جن سےظاہر ہے کہ شرح صدر کے بعد وہ تمام رکاوٹیں دُور ہوجائیں گی جوغلطی کا مظنّہ اور موجب بن سکتی ہیں اور جب وہ تمام بوجھ اتاردئیے جائیں جواس دنیا میں غلطی اور معصیت کا موجب ہوسکتے ہیں توپھر ایسی محفوظ اور معصوم شخصیت جس کا دنیا میں اصل وظیفہ ذکرِالٰہی اور شکر ہے۔ اس کے ارشادات کی حجّیت ایک متدین اور عقلمند آدمی کی نظر میں کیونکر مشتبہ ہوسکتی ہے۔
اگرعام اربابِ تاریخ اور غیرمعصوم علماء کی طرح اس کے اقوال پر بحث ہوسکے انہیں غلط اور ناقابل حجّت قراردیاجاسکے تورفعِ ذکر کی صُورت کیاہوگی۔ اس کاذکر توعامۃ الناس کی طرح ٹھہرا وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ توصرف وعدہ ہی رہا اس کی عملی صورت توواضح نہ ہوسکی۔
اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کوشرح صدر کی نعمت سے سرفراز فرمایاہے۔ انہیں دنیاکی قیادت سے بھی نوازا ہے اور یہ مقدس قیادت ہی دُنیا کےلیے کامیابی اور سربلندی کی ضامن قرار پاسکتی ہے۔
ان عمومی القابات پر ایک نگاہ ڈالئے جن سےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فداہ روحی کونوازاگیااور دوسری طرف منکرین حدیث کی اس بےجوڑ حجت نوازی کوملاحظہ فرمائیے کہ اس سراپا علم و دانش پیغمبر کےارشادات امت کے لیے حجّت ہی نہیں
|