Maktaba Wahhabi

122 - 191
بتائیں گے کہ اہل حدیث میں بحمد للہ یہ دھاندلی نہیں ہے بلکہ آئمہ جرح وتعدیل اور اہل نقد ونظر کےافکار سےاستفادہ یہاں کاشعار ہے۔ اوّل تو ہم قرآن اورحدیث، قرآن اور عقل سلیم میں تعارض کے قائل ہی نہیں لیکن اگر بظاہر کہیں تعارض محسوس ہوتواصول کی حد تک یقیناً یہی بات ہے کہ حدیث کا درجہ قرآن عزیز کےبعد ہی ہونا چاہیے۔ ا صولِ حدیث میں تطبیق، ترجیح، توقف کی ساری صورتیں موجود ہیں کما فصل فی موضعة۔ ہاں استدلال اور اخذ مسائل کے وقت ہمارے نزدیک حدیث وحی ہے اور اس کا اُسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم دیا گیا جیسے قرآن کا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے الفاظ ہم تک پہنچائے اور احادیث کا مفہوم ‘اورہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں پوری امانت اور صحیح دیانت سےکام لیاہے، یہی حال صحابہ رضی اللہ عنہما کا تھا۔ ہمیں ان کےعلم ودیانت پر پورا یقین ہے۔ عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ «كَانَ جَبْرَائِيلُ يَنْزِلُ بِالْقُرْآنِ وَالسُّنَّةِ وَيُعَلِّمُهُ إِيَّاهَا كَمَا يُعَلِّمُهُ الْقُرْآنَ۔ (صواعق ۳۴۰؃ ج۲۔ شاطبی ج۴۔ جامع بیان العلم ابن عبدالبر )”جبریل قرآن اورسنت دونوں کولے کرنازل ہوتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوسنت بھی قرآن کی طرح سکھاتےہیں۔ “اس لحاظ سے ہم وحی میں تفریق کے قائل نہیں۔ قرآن اور حدیث دونوں مآخذ ہیں اور بیک وقت مآخذ ہیں۔ ا سی لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: أُوتِيت الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، حلت وحرمت اور بعض مسائل میں سنت کوجو مستقل حیثیت حاصل ہے اس پر ہمیں پورایقین ہے۔ اس مقام پرجناب کا یہ ارشاد بالکل مجمل ہے: ”دین میں ان (احادیث ) کی اصلی جگہ قرآن کےبعد ہے کہ اس سے پہلے یااس کے برابر۔ اگر کوئی شخص یہ ترتیب الٹ کر ان کوقرآن سے پہلے کردے یا قرآن کےبرابر کردے تو وہ اسی غلومیں مبتلا ہوجائےگاجس میں اہل ظاہر مبتلا ہوئے جنہوں نے ہر حدیث کو حدیث متواتر بناکے رکھ دیا۔ “ اس چیستان کی تشریح فرمائیے، ہماری نظرمیں توکوئی ایساآدمی نہیں ”جوحدیث ہی
Flag Counter