ہوتاہے کہ قاضی عیسیٰ بن ابان کا رجحان بھی اعتزال کی طرف تھا، ان کی وجہ سے فروع میں بھی اخبار آحاد کواشتباہ کی نظر سے دیکھاجانے لگا۔ چنانچہ عادل وضابط راوی اگرفقیہ نہ ہوتو اس کی روایت مقبول نہیں ہوگی بلکہ قیاس کواس کی روایت پرترجیح دی جائے گی۔
واماروایة من لم یعرف بالفقه ولکنه معروف بالعدالة والضبط مثل ابی ھریرۃ وانس بن مالک فان وافق القیاس عمل بہ وان خالفہ لم یترک الابالضرورۃ (اصول بزدوی ۶۶۹ /۲ احکام آمدی ۱۶۹/۲)
”عادل اور ضابط راوی اگر فقیہ نہ ہو جیسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ توان کی روایت اگر قیاس کے موافق ہو تو قبول کی جائے ورنہ اسے ضرورۃً ترک کردیا جائے گا۔ “
قاضی عبدالعزیز بن احمد شارح اصُول بزودی فرماتےہیں ”حدیث کوقیاس پرمقدم کرنے کے لیے ہم نے جوفقہ ِ راوی کی شرط لگائی، یہ صرف عیسیٰ بن ابان کا مذہب ہے اور قاضی ابوزید دبوسی نے اسے پسند کیا اور مصراۃ اور عرایا کی حدیث کو اسی اصول پر تخریج کیاہےا ور بُہت سے متاخرین نےا سے اپنالیا۔ امام ابوالحسن کرخی اور باقی قدماء احناف اس کےخلاف ہیں، و ہ فرماتے ہیں عادل اور ضابط راوی کی حدیث بہرحال قیاس پر مقدم ہوگی اور اکثر علماء کا یہی خیال ہے۔ خود حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ضعیف حدیث کو قیاس پرترجیح دیتے ہیں ( کشف الاسرار۷۰۳ ج۲)
یہ قاعدہ اصول فقہ کی تقریباًتمام کتابوں میں مرقوم ہے اور قدماء احناف نے بھی اسے پسندنہیں فرمایا کہ ضعیف حدیث پرقیاس کوترجیح دی جائے۔ و یسے بھی یہ قول غلط ہے۔ قاضی عیسیٰ بن ابان ایسے بزرگ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ جیسے بزرگوں کو برسوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے، جن کی ماوری زبان عربی ہے، غیر
|