Maktaba Wahhabi

91 - 191
فطری طور پر رہ جاتا ہے اس سے تو ان کے کام محفوظ نہ تھے۔ ۔ “(تفہیمات ص ۳۱۸) اس کےبعد متبعین حدیث پر تنقید فرماتے ہیں کہ : ”ان (محدثین) کی نگاہ میں احادیث کے معتبر یا غیر معتبر ہونے کا جو معیارہے ٹھیک ٹھیک اسی معیار کی ہم (اہلحدیث) بھی پابندی کریں۔ مثلاً مشہور کوشاذ پر، مرفوع کو مرسل پر اور مسلسل کو منقطع پر لازماً ترجیح دیں۔ “ ( تفہیمات؃ ۳۱۸) بالکل بجا، مگرسوال یہ ہے کہ تواتر کی صورت میں جویقین کا سرمایہ موجود ہے وُہ بھی توآخر انسان ہی ہیں، ان کےلیے بھی فطری حُدود متعین ہیں۔ اگر یہ تنقید دُرست ہے توقرآن اور سّنّت متواترہ کےیقین کوبھی ظن ہی کے مرادف سمجھناچاہیے۔ گویاانسان کی فطری حدود کے اندر یقین کا وُجود ناپید ہے۔ مولانا کےذاتی خیالات یقیناً یہ نہیں ہوں گے مگر، ان کے استدلال کی انتہا یہی ہے۔ آئمہ حدیث اور ان کے مساعی اور فنِ حدیث کےمتعلق مولانا نے جوکچھ ایک ہاتھ سے دیاتھا اسے دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیا، بلکہ ان کے نزدیک انسانیت کی لغت میں یقین کا لفظ ایک بامعنی لفظ ہے۔ اُصول حدیث کےمتعلق اہلحدیث اور متبعین حدیث کی ترجمانی مولانانے جس طرح فرمائی ہے وُہ قطعاً غلط ہے۔ آئمہ حدیث اور متبعینِ حدیث نے کبھی یہ دعویٰ نہیں فرمایا کہ اُصول تنقید آخری ہیں، ان پر اضافہ ناممکن ہے، بلکہ ہماری نظرمیں اُصول حدیث ایک متحرک فن ہے، وہ بتدریج اس حد تک پہنچاجہاں وہ آج موجود ہے۔ اگر کسی معقول اصل کا اس میں اضافہ فرمایاجائے توفن میں اس کی گنجائش ہے۔ البتّہ یہ شکایت بجاہے کہ آج تک اس میں اضافہ کی جوکوشش کی گئی اس کی بنیادیں ازبس کمزور ہیں اور اسے اُصول کی حیثیّت سےقبول کرنا سخت مشکل ہے۔ ان میں تعمیر کے بجائے تخریب ہے۔ آپ نے اور آپ سے پہلے بعض بزرگوں نے ”درایت“ کانام لیا مگر اس کی اساسی حیثیت کیا ہے؟ اس کا تذکرہ نہ ان حضرات نے کیانہ آپ نے۔ بلکہ آپ خود بھی اس پر مطمئن نظرنہیں آتے۔ غرض حدیث اور فنِ حدیث کی مولانانے جس قدر حوصلہ افزائی کی، ازراہِ عنایت
Flag Counter