حدیث کےسوانہ ہوسکے۔ اس کےذیل میں اُن آیات کاذکر آئےگا جن میں دونوں قسم کے تذکرے موجود ہوں۔
۱)وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا( ۷:۵۹)
رسول جوکچھ تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے روکیں رک جاؤ۔ آتَاكُمْ کو یہاں نَهَاكُمْ کے مقابلہ میں رکھاگیاہے۔ اور نہی کے مقابلے میں امر ہوتاہے۔ اس لیے آتَاكُم ْکے معنی اَمَرَکُمْ ہوں گے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امر پرسختی سے عمل کرو۔ امر کا مفاد وجوب ہےا ور نہی کا تقاضا حرمت، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کا حکم فرمادیں اس کی پابندی واجب ہوگی اورجس چیز سے روکیں اس کا کرنا حرام ہوگا۔ آیت کا عموم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے وجوب پر مشتمل ہے فَخُذُوهُ میں اسی وُجوب وتاکید کا ذکر فرمایاگیاہے۔ آیت کو تقسیم ِ غنائم پرمحمول کیاجائے توبھی اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ا س میں بھی تقسیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امرو نہی کی بناء پر ہوگی۔ اس میں تشریع کےاختیارات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوتفویض فرمائے گئے۔ وجوب وتحریم دونوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کوقطعی اورحتمی بتایاگیا اور لوگوں پرفرض کیاگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امر ونہی کےبعد صرف اسی کی تعمیل کی جائے کسی دوسری چیز کے انتظار کی ضرورت نہیں، ہمارے نزدیک حجیّت حدیث کا یہی مطلب ہے۔
۲۔ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ(۴:۶۴) ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھیجا ہی اس لیے ہے کہ لوگ اس کی اطاعت کریں۔ اس آیت میں رسالت کا مقصد ِ حقیقی اطاعت قرار دیاگیاہے اگر کوئی شخص رسالت یا رسول کوتسلیم توکرتا ہے لیکن اس کی اطاعت اوراس کےاحکام کےسامنے انقیاد کوضروری نہیں سمجھتا، تویقین کرناچاہیے کہ وہ نبوت کی غایت اور اس کے مقصد سےناواقف ہے کسی چیز کی غایت اور مقصد سےانکارکانتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی افادی حیثیت سےانکار کردیاگیا۔ اور اُسےبےسُود سمجھاگیا۔ معلوم نہیں کہ اس کےبعد کفر وحجود کس چیز کا نام رکھاجائےگااور چونکہ پیغمبر کویہ مقام اللہ تعالیٰ کے اذن سے ملا ہے لہٰذا اس مقام کا انکاراللہ تعالیٰ کے ساتھ
|