حضرت موسیٰ علیہ السلام سے متعلق یہ حدیث معتزلہ کی طرح ہمارے مولانا کوبھی ”عقل عام“ کےخلاف معلوم ہوئی، حالانکہ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ وہ ایک ابتلاتھا جسے یوں ہی ختم ہوناتھا۔
ظاہر ہے کہ موت کا وقت کم وبیش نہیں ہوتا۔ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ (۴۹:۱۰) ملک الموت آئے اور تھپڑ کھاکر چلےگئے پھر اللہ تعالیٰ کے پاس شکایت کی اور اتنی دیرموسیٰ علیہ السلام زندگی کی بہاریں گزارتے رہے۔ اس حدیث سے یہ مفہوم اخذ کرنا صحیح نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک الموت قبل ازوقت آزمائش کےلیے انسانی شکل میں آئے تھے اور اُنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے ایک مطالبہ اس وضع میں رکھا جس کا ان کو حق نہ تھا، ا س کی پاداش ملی، یہی قدرت کا منشاتھا۔ انبیاء کی زندگی میں ایسے مراحل آتے ہیں جوعقل ِعام کی رسائی سے بالاتر ہوتےہیں جوشخص ان کوعقل عام کے پیمانوں سے ناپنا شروع کردے گا وہ ناکام ہوگا۔ اس کی تسکین اسی صورت میں ہوگی کہ وہ متعلقہ واقعہ کا انکار کرے اور عقل کےلیےتسکین کابےحقیقت سامان پیدا کرے۔ انبیاء کےمعجزات اور ملاء اعلیٰ کے ساتھ ان کےتعلقات یہ عقل عام کامسئلہ نہیں، یہاں خواص کی عقلیں بھی حیران رہ جاتی ہیں لہذا اگر طبیعت مطمئن ہوسکے توشارع کےالفاظ میں ہی اسے قبول فرمائیے ورنہ جو جی میں آئے فیصلہ کیجیے، اسے اگرعقل کی سان پر چڑھایاگیا توسان ٹوٹے گی یہ واقعات قائم رہیں گے۔
مؤدبانہ گزارش:۔ مولاناکےارشادات کا جب یہ مقام سامنے آیاجس میں تین احادیث پرشبہ فرمایاگیا ہےتومجھے بےحد دُکھ ہوااورمولانا کے ان ارشادات کےمتعلق جب کچھ لکھنے کی کوشش کی توطبیعت رنج اور افسوس کےجذبات سےلبریز ہوگئی اس لیے قلم رکھ دیا، میں نہیں چاہتاتھاکہ مولانا کےاحترام کےخلاف نوک قلم سےکوئی فقرہ نکل جائے، آج مدت کے بعد قلم اٹھایا۔ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق
|