میں چل نکلے۔ پھر ہمارے یہ جمہُوریت پرست حضرات منہ اٹھا کر دُنیا کو دیکھنے لگیں۔
۵۔ پھر علیٰ علاتہٖ اگر اتفاقاً کبھی چند سال کے لیے ایسامعاشرہ میّسر آجائے جو واقعی علمی طور پر صحیح اور اہل ہوتو اس کی کیاضمانت ہے کہ وُہ جوسوچیں وہ دُرست اورصحیح بھی ہو اور لوگ اس کے کیوں پابند ہوں اور ان کے اجتہاد کودین اور شریعت کا مرتبہ کیوں دیں اس لیے کہ سابق مجتہدین کے اجتہاد ات جب شریعت اور دین نہیں بلکہ ان کے اجتہادات پر ہر زمانہ میں تنقید ہوتی رہی تواس اجتہاد کوکیوں دین اور شریعت کا نام دیا جائے۔
۶۔ ظاہر ہے کہ اس مرکز ملّت کے فیصلے دین نہیں ہوں گے اور آنے والے مرکز ملّت کو لازماً ان مسائل سےتصادم اور اختلاف کاحق ہوگا تو چند سال کےبعد اگر ان تما م مراکز ملّت کی روداد عمل جمع کی جائے تویہ مجموعہ ایک مضحکہ خیز چیز ہوگا اور آنے والے لوگ اس چُوں چُوں کے مربّے کوکھلی حماقت تصوّر کریں گے۔
۷۔ غالباً اس کے جواب میں یہی کہاجائے گا کہ ہم نے کب اسے شریعت یادین کہا ہے۔ کب کہا ہے کہ یہ لوگ اسے ضرور قبول کریں تو ادباً گذارش ہے کہ اس میں جدت کیاہوئی۔ سابق مجتہدین کی فقہ میں اور مرکز ملّت کے فیصلوں میں فرق کیاہوا۔ مجتہدین کے فیصلوں میں علمی عقیدت شامل تھی۔ یہاں وُہ بھی ناپید ہوگی صرف حُکومت ہوگی جس کی طفیل یہ حضرات مرکز ملّت کہلائیں گے۔ اگر یہ مادی قوت نہ ہوتوان اجتہادات کی اتنی وقعت بھی نہیں جو قہوہ خانوں اور ہوٹلوں میں رونق کاموجب ہوتی ہے۔
۸۔ اس کے جواب میں حرفِ آخر کے طور پر یہی کہاجاسکتاہے کہ واقعی یہ مادی دباؤایک نظام کےلیے ہے جس طرح ایک حکومت اپنے قوانین نافذ کرتی ہے یا بارگاہ خلافت سے احکام کانفاذ ہوتا ہے تواس کے متعلق یہ گزارش ہے کہ
|