کہ وُہ عوام کے نمائندے نہیں ہوں گے۔ عوام اپنی لاعلمی کی وجہ سےان کے علمی مقام کو نہیں سمجھ سکیں گے اس لیے یہ ووٹ بالکل غلط استعمال ہوگا جیسے سیاسی انتخابات میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ عوام ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کرسکتے۔ ہم بارہا دیکھا ایک عالم اور قانون دان کے بالمقابل عوام نے ایسے شخص کوووٹ دیا جو اپنے دستخط نہ کرسکتا تھا۔
۳۔ غالباً فرمایا جائےگا کہ انتخاب کاحق قرآنی معاشرہ کودیا جائے گا۔ ا ب سوال یہ ہے کہ یہ قرآنی معاشرہ کہاں سے آئے گا اور کب تک دنیا اس کاانتظار کرے گی نظر بظاہر اگر موجودہ علماء کی مخالفت کوئی حکومت بزورِ شمشیر آج ہی ختم کردے توبھی دوسال تک قابل اعتماد قرآنی معاشرے کابروئے کار آناقریب قریب ناممکن ہے گویا یہ تجویز اپنی زندگی سے پہلے ہی آغوش قبر کی زینت ہوگی۔
۴۔ اس کے ساتھ ہی دُنیا کو اب تک انتخاب کا کوئی ایسا طریقہ نہیں مل سکا جس سے بالکل صحیح اور اہل نمائندوں کا انتخاب عمل میں آسکے۔ دُنیا کے مُعاملہ میں توعملی کمزوری قابل برداشت ہوسکتی ہے لیکن دین کے معاملہ میں اسے کیونکر برداشت کیاجائے گا کہ نالائق اور بدقماش بندے مرکز ملّت کی مسندپر قابض ہوں اور بفحوائے حدیث پاک افتوبغیر علم فضلُّوا وَاَضَلُّوا۔ جاہل اپنی جہالت سے اپنی اور عوام کی تباہی اور بربادی کا موجب بنیں۔
جب دین میں احتیاط کا یہ عالم ہو کہ ا حادیث اس لیے ناقابل عمل ہوں کہ وہ اصطلاحی طور پرظنی ہیں اور یہ مجسم اور حقیقی وہم صرف اس لیے قبول کرلیے جائیں کہ انہیں چند جاہلوں نے چند ووٹوں کی کثرت سے چند کرسیاں سُپرد کردی ہیں۔
انتخاب اور جُمہوریت عملاً جس طرح تمام ممالک میں ناکام ہورہے ہیں ممکن ہے یہ عملی ناکامی نظر یاتی ناکامی پر منتج ہو اوردُنیا کسی اور نظر یہ کی تلاش
|