Maktaba Wahhabi

152 - 191
لکھنوی، مرزا غلام احمد، مولوی احمدرضاخاں صاحب تصنیف وتالیف کےلحاظ سے مشہور ہیں، کیاان سب کو حدیث پر تنقید کاحق دیاجائےگا؟ درس وتدریس کےمشاغل میں سیّد احمد خاں مرحوم، مولانا سیّد نذیر حسین صاحب رحمہ اللہ اور مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ کےکارنامے اور خدمات دنیا کو معلوم ہیں لیکن تنقید کا حق کونسی خدمات اور کارناموں کے بعددیاجائے گا۔ درایت اورکارناموں کواگرکھلا اور آزاد کردیاگیا تو یہ انکار حدیث کا پیش خیمہ ہوگا۔ مولانا مُودودی اور آپ کی روشنی سے حدیث پر نقد میں ایسی فوضویت اور آوارگی کا راستہ کھولدے گی جس کی مضرت انکار ِ حدیث سے کم نہیں ہوگی۔ اس آوارگی کا اندازہ ان چندپڑھے لکھے حضرات سے نہیں لگاناچاہیے جوآپ کے آگے پیچھے پھرتے پھراتے رہتےہیں اور نہ ان چنداہلحدیث رفقاء سے جوجماعتی پابندیوں کی وجہ سے منقارزیرپررکھنے پرمجبُور ہیں، جماعتی مصالح کی بناء پر وہ اپنا عندیہ کھل کرنہیں کہہ سکتے۔ اس کا اندازہ ان عوام سے لگانا چاہیے جوملک کے اطراف واکناف میں آپ کا لٹریچر پڑھتے ہیں۔ جب وہ حریم قیادت سے یہ سنیں گے کہ آئمہ حدیث اصول ِ درایت سےمحروم تھے۔ ا ن کا نقطہ ٔ نظر اخباری تھا، فقہی نہ تھا، جب اُنہیں معلوم ہوگا کہ مشائخ کی اسانید، مدارس کی تعلیم سے تنقید حدیث کی اہلیت پیدا نہیں ہوتی تووہ اپنے ذہن میں آئمہ اور دینی تعلیم کےمتعلق کیا رائے قائم کریں گے؟ وہ جب آپ کی زبان سے سنت کی محتاط اور سکڑی ہوئی تعریف سُنیں گے، اخبار آحاد کی ظنیت کا وظیفہ سنیں گے تو اس ماخذ کے متعلق ان کے حسن ظن کو کس قدر ٹھیس پہنچے گی۔ حریم قیادت میں آنے کےبعد آپ کی ذمہ داریاں ”مکتبی ملّا “ سے کہیں زیادہ ہوگئی ہیں جو فرمانا ہو اُسے بہت سوچ کر فرمائیے۔ نہ ہر درایت سے فنِ حدیث میں مہارت حاصل ہوتی ہےنہ ہر کارنامے اور خدمت سے انسان ”رسول کا مزاج شناس“ بن سکتاہے۔ ا س کے لیے وہی لوگ موزوں ہوسکتےہیں جن کے شب وروز کا مشغلہ حدیث ہے، جن کے عزیزاوقات
Flag Counter