ا س سے پہلے عیسائی اور سماجی حضرات نے ان پر اعتراض کیاہے اور ان سے سُن کر ہمارے بعض شیعہ اور اہل قرآن دوست بھی ان احادیث کو اپنی تنقید کا ہدف بناتے رہے ہیں مگر ان حضرات کے اندازِ گفتگو سے طبیعت کونہ تعجب ہوا نہ پریشانی اس لیے کہ ان حضرات کا انداز فکر معلوم ہے لیکن جسٹس محمد شفیع صاحب نے جس کرسی سے بات کی ہے وہاں کی عقل ودانش کے متعلق ملک کے ارباب ِ فکر کواعتماد ہے۔ یہاں اتنی سادہ بلکہ مہمل تنقید کی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔
گفتگومیں عریانی اخلاقاً معیوب ہے اور میاں بیوی کے مخصوص تعلقات کا بلاوجہ تذکرہ شرعاً ویسے بھی ناجائز ہے لیکن جب ضرورت داعی ہوتو پھر اس عریانی کا تذکرہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔
محترم جسٹس محمد شفیع صاحب نے کبھی زنا بالجبر اور نامردی کے کیس سُنے ہوں گے جہاں ایک طرف زنا بالجبر کی سنگین سزاکا خطرہ ہے تودوسری طرف پردہ داری کا اخلاقی تقاضا مگر یہاں عُریانی کا اخلاقی تقاضا قطعاً تفتیش کی راہ میں حائل نہیں ہوگا۔
اسی طرح جب عورت خاوند کے متعلق شکایات کرے کہ یہ جنسی ضرورت پر قادر نہیں۔ ایک طرف اس تعلّق کے ہمیشہ کےلیے انقطاع کامطالبہ ہے اور دوسری طرف اخلاق کا تقاضا کہ میاں بیوی کے معاملات عریاں نہ ہوں فرمائیے آپ کسے ترجیح دیں گے ؟ اگر خاوند استغاثہ کی صحت کا انکار کردے تو شاید اس عریانی کی ڈاکٹری معائنہ تک نوبت پہنچ جائے گی تب یہ شرعاً واخلاقاً ہر طرح جائز اور دُرست ہوگا۔
بالکل یہی حال درس وتدریس اور تعلیم و تعلم کا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے یہ تذکرہ کسی عوامی تقریر میں نہیں فرمایابلکہ بعض بچے اپنی ماں سے بعض مسائل دریافت کررہے ہیں اور چونکہ وہ سنت کوشرعی حجت سمجھتے ہیں اس لیے چاہتے ہیں کہ مسئلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل یاتقریر سے حل ہو۔ اب یہاں دوتقاضے ہیں۔
ایک علم اور فہم کا تقاضا ہے۔
دوسرا ا خلاق اور پردہ داری کا۔
|