پائےجائیں۔ ایسی خبر سے قطعاً علم حاصل نہیں ہوگا۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
________________________________________________
(بقیہ حاشیہ)شیخ محمد ابراہیم الوزیر الیمنی (۸۷۰ھ ) فرماتےہیں : ”وقدانعقداجماع المسلمین علیٰ وجوب قبول الثقات فیما لایدخله النظر ولیس ذٰلک بتقلید بل عمل بمقتضی الادلة القاطعة الموجبة لقبول خبر الآحاد وھی محررۃ فی موضعھا من فن الاصول ولم یخالف فی ھٰذہ الاشر ذمة یسیرۃ وھم متکلموابغداد من المعتزلةوالاجماع منطبق قبلھم وبعدھم علیٰ بطلان قولھم ۱ھ (الروض الباسم ص۳۲)
ثقات کی ایسی خبریں جن پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ ان کے قبول پر اہل اسلام کااجماع ہے اور یہ تقلید نہیں بلکہ قطعی دلائل کا تقاضا ہےجن کا مفاد یہ ہے کہ اخبار آحاد کاقبول اور ان سے احتجاج ضُروری ہے۔ یہ مسئلہ فن اصول میں اپنی جگہ پرمرقوم ہے اور بغداد کےمعتزلہ کےسواکسی نے اس کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس پر اجماع پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے۔ “
اخبار آحاد پر اعتراض عموماً ان لوگوں نے کیا جوانسانی نفسیات سے ناواقف اور ان کی حدود امکان سے ناآشنا تھے۔ آج بھی اس میں وہی نیچر پرست شبہات کی راہیں پیداکررہے ہیں جو زمین پر بیٹھ کرآسمان کی باتیں کرنےکےعادی ہیں، چنانچہ مختلف ادوار میں اخبار آحادکےخلاف اُنہی حلقوں سے آواز اٹھی جو یاتوخود بدعت کے داعی تھے یااہل بدعت سے ایک گونہ متاثر تھے۔
۱)خوارج (منکرین ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جواہل بیت کےفضائل میں تھیں (حدیث)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰ھ
۲)شیعہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جواحادیث صحابہ رضی اللہ عنہم کے فضائل میں تھیں ۲۰۰ھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۳)معتزلہ اورجہمیہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ احادیث صفات الٰہی
۴)قاضی عیسیٰ بن ابان اور ان کے اتباع ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۲۱ھ
۵۔ متاخرین فقہاء سےقاضی ابوزیددبوسی وغیرہ
۶۔ اس کےبعدمعتزلہ اور متکلمین کے ساتھ متاخرین فقہاء کی ایک مختصر سی جماعت
اصول وفروع دونوں میں ان حضرات نےخبرواحد سے اختلاف کیا۔ ۴۰۰ھ کےبعد
۷۔ یورپین تہذیب سےمرعوب گروہ، مولوی چراغ علی، سرسیداحمدخاں وغیرہ (جاری ہے)
|