Maktaba Wahhabi

113 - 191
ولاریب ان مجردخبرالواحد الذی لا دلیل علیٰ صدقهٖ لا یفید العلم (بقیہ)یہ حضرات فن سے قطعاً ناواقف تھے ان کی تحقیق میں احادیث تاریخ کاذخیرہ ہیں جون کی نیچرکے موافق ہواقبول کرلیااور جومخالف ہواترک کردیا، ۱۳۰۰ھ کےقریب قریب۔ ۸۔ مولوی عبداللہ چکڑوالوی‘مستری محمدرمضان گوجرانوالہ ‘مولوی حشمت علی لاہوری، مولوی رفیع الدین ملتانی احادیث کا بالکلیہ انکار۱۳۰۰ھ کےبعد ۹۔ مولوی احمددین صاحب امرتسری، مسٹر غلام احمد پرویز۔ یہ حضرات سرسید سے متاثرہیں لیکن جاہل اور غیرمحتاط ان کےنزدیک قرآن و حدیث اورپورادين ایک کھیل ہےیازیادہ سے زیادہ ایک سیاسی نظریہ ہے جسے ہروقت ہمیں بدلنےکاحق حاصل ہے۔ مولوی احمد دین بعض متواتر اعمال کو مستثنیٰ سمجھتے تھے۔ ۱۴۰۰ھ ۱۰۔ مولاناشبلی مرحوم، مولاناحمید الدین فراہی رحمہ اللہ، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی اور عام فرزندان ندوہ، باستثنائے حضرت سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ یہ حضرات حدیث کےمنکر نہیں لیکن ان کے اندازِ فکر سے حدیث کااستخفاف اور استحقار معلوم ہوتا ہے اور طریقہ ٔ گفتگو سےانکار کے لیے چور دروازے کھل سکتےہیں۔ تحقیق وتثبت کے بعد حدیث کا ٹھیک وہی مقام ہے جو قرآن عزیز کا ہے اور فی الحقیقت اس کے انکار کا ایمان ودیانت پر بالکل وہی اثر ہے جو قرآن عزیز کے الفاظ کی تاویل میں جب اختلاف ہوتو اس کےالفاظ کی قطعیت میں شبہ نہیں ہوگا۔ لیکن مفہوم کی تاویل اور اس کے تعین میں بحث رہےگی، جوتاویل قواعد صحیحہ اور علوم ِ سنت کےخلاف ہوگی اس کے منکر کو قرآن کا منکر کہا جائے گا، اختلاف تاویل کسی کو اس فتویٰ سےبچانہیں سکتا۔ ٹھیک اسی طرح جواحادیث قواعدصحیحہ اور آئمہ سنت کی تصریحات کےمُطابق صحیح ثابت ہوں، ان کاانکارکفر ہوگا اور ملت سےخروج کے مترادف، صرف اختلاف اور وہ بھی ایسے حضرات کا جوحقیقت سےآگاہ نہیں کسی حقیقت کواپنے موقف اور مقام سے نہیں ہٹاسکتا۔ قرآن اختلاف تاویل کےباوجودخداکاکلام ہے اور شرعاً حجت، اسی طرح حدیث تحقیق وتثبت کےباوجود خداکی طرف وحی ہے اوردین میں قرآن کے بعد حجت، امام عثمان سعید دارمی، ۲۸۲ھ فرماتےہیں: لان ھٰذالحدیث انماھودین بعدالقراٰن (نقض الدارمی علی بشر المریسی ص۱۳۷)
Flag Counter