Maktaba Wahhabi

111 - 191
کےعلاوہ سب احادہیں۔ ا گرخبر واحد میں یقین کےقرائن موجود نہ ہوں یاضعف کےقرائن (بقیہ حاشیہ) تبلیغ و موعظت کی ضرورت کے پیش نظر فرمایا: فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ (۱۲۲:۹) یعنی ہر گروہ سے کچھ لوگ علم وتفقہ کےلیے سفر کریں اور واپس آکر اپنی قوم کوڈرائیں۔ طائفہ کالفظ ایک اور اس سے زائد کے لیے مستعمل ہوتاہے اور یہ خبر واحد ہی ہوگی۔ ان کےعلم وانداز پر کوئی عددی پابندی نہیں لگائی گئی کہ جب تک وہ سوپچاس نہ ہوجائیں کوئی بات زبان سےنہ کہیں۔ معلوم ہے جب وہ کہیں گے تو قرآن عزیز کی ہدایت کے مُطابق ان کے ارشادات پرلازماً اعتماد ہوگا، خبرواحد کی حجیت اور اعتماد کےمتعلق قرآن عزیز کی یہ صراحت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پربھی پابندی نہیں لگائی کہ جب تک مخالفین کی تعداد حدتواتر تک پہنچ جائے آپ کوئی لفظ زبان سےنہ فرمائیں۔ اگرخبر واحد شرعاً مستند نہ ہوتی توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پرضرور کوئی نہ کوئی پابندی لگائی جاتی۔ ظاہر ہے کہ خبرواحد شرعی حجت ہے۔ اسی لیے آئمہ سنت نے متثبت اورتحقیق کےبعد اسےحجت ماناہے، قرائن کےبعد اُسے پوری اہمیت دی ہے اور جواس سے ثابت ہواسےعلم کی حیثیت سے قبول فرمایاہے۔ سلسلہ احادیث میں اکثر اخبار ہیں، آئمہ حدیث نے جہاں ضرورت محسوس کی، تحقیق اور تبیُّن فرمایا۔ قرائن کی چھان پھٹک فرمائی ہے، اس کے لیے اُصول وضع فرمائے اور اسے قبول فرمایا۔ یہی ممکن تھا، ا مکان کی حدود سے آگے انسان کے اختیار کی چیزنہیں۔ اس کا عمل اور علم، سعی اورکوشش، ممکنات تک محدود ہے، اس سےزیادہ کی تکلیف نہ اسے قدرت نے دی ہے نہ وہ ا س کا مکلّف ہے۔ خبرواحد اوراس پربحث ونظر:۔ پہلی صدی ہجری اسلامی روایات کا مقدس دورہے، شریعت کی علمی اور عملی روایات ا س وقت اپنےجوبن پرتھیں۔ جوکچھ اس وقت ہوا وہ اسلامی نقطۂ نظر سے بُہت حدتک احترام وقبول کامستحق ہے۔ ابنِ حزم فرماتےہیں کہ پہلی صدی ہجری میں خبر واحد بلاانکارقبول کی جاتی تھی۔ ا ہل سنت۔ خوارج، شیعہ، قدریہ سب اسے قبول کرتے تھے۔ پہلی صدی کےبعدمتکلمین معتزلہ نے کی ا س میں اجماع اُمّت کی مخالفت کی (احکام الاحکام ج۱ص۱۱۴) (جاری ہے)
Flag Counter