Maktaba Wahhabi

77 - 195
وفات کے بعد اب میں کسی دوسرے کے لیے اذان نہیں کہوں گا ۔ سیدنا ابو بکر نے فرمایا : اچھا تیری مرضی۔ اس کے بعد ایک بار سیدناعمر کے دور میں اذان دینا شروع کی تو رسول اللّٰہ کی شہادت پر پہنچ کر حسبِ عادت چہرہ انور کو دیکھنے کا قصد کیا جب نگاہیں اس مبارک چہرہ کو نہ پا سکیں تو وفورِ جذبات سے آواز رندھ گئی اور جذبات پر قابو نہ رہا اور اذان مکمل نہ کرسکے ۔[1] 10.سیدنا علی بن ابی طالب سے پوچھا گیا: آپ کی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کیسی تھی؟ سیدنا علی نے فرمایا : ’كان واللّٰہ أحب إلينا من أموالنا وأولادنا وآبائنا، وأمھاتنا ومن الماء البارد على الظمإ ، واللّٰہ!‘رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے مالوں ، اولادوں ، باپوں ، ماؤں اور شدید پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے۔‘‘[2] 11. سیدنا سفیان نے ایک بار کہا کہ میں نے کسی کو دوسروں سے ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اور جاں نثار ان سے کرتے ہیں ۔[3] 12. سیدنا عمر بن خطاب کی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کی رفاقت کی خواہش اس قدر زیادہ تھی کہ اپنی وفات سے قبل اپنے بیٹے سیدنا عبداللّٰہ سے کہا : اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ کے پاس جاؤ اور ان کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنا کہ عمر سلام عرض کرتا ہے اور ہاں دیکھو ،امیر المؤمنین کا لفظ استعمال نہ کرنا۔ سلام عرض کرنے کے بعد درخواست کرنا کہ عمر بن خطاب اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگتا ہے ۔ سیدنا عبداللّٰہ نے حاضر ہوکر سلام عرض کیا اور اندر آنے کی اجازت چاہی دیکھا کہ سیدہعائشہ رضی اللہ عنہا (امیر المومنین کی بیماری کے غم میں ) بیٹھی رو رہی ہیں ۔ سیدنا عبداللّٰہ نے عرض کی: عمر بن خطاب سلام عرض کرتے ہیں اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگتے ہیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : وہ جگہ تو میں نے اپنے لیے رکھی تھی ،لیکن اب میں اپنی بجائے عمر کو ترجیح دیتی ہوں ۔ سیدنا عبداللّٰہ واپس ہوئے
Flag Counter