6. عرب میں نکاحِ بیوگان کو منحوس خیال کیا جاتاتھا اور متبنیٰ کی بیوی کو بہو کا درجہ دیاجاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان رسوماتِ بد کا خاتمہ مطلوب تھا۔آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح بیوگان سے عورتوں کےلیے رحمت و شفقت کا چترسایہ فگن کھول دیا۔اور ان کے یاس وقنوطیت سے بجھے ہوئے دلوں میں مہر ومحبت اور روشن مستقبل کے دیپ روشن کردیے۔ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
یہاں زیادہ تفصیل کی گنجائش ہےنہ کتاب کا یہ موضوع ہے۔بہرحال اس بات کا کوئی انصاف پسند انکار نہیں کرسکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرتِ ازدواج میں متعدد قومی،دینی،سیاسی اور ملی فوائد ومصالح تھےجن کی تفصیل بڑی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قدر نکاح کیے ان کی بنیادی فوائد دین،مصالح ملک،اورمقاصد قومی و ملی پر مبنی تھی۔اور ان فوائد ومصالح ومقاصد کااس دورِ انحاط میں اور عرب جیسے جاہلیت پسند ملک میں حاصل ہونا تزویج(نکاح) کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔
اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ایک نکاح پر تفصیلی بحث کریں اور آپ کو یہ بتائیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کس کس نکاح میں کیا کیا حکمت تھی تو یقیناً آپ کو اقرار کرنا پڑے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیےبعض ضروریات دینی اور مصالح ملکی کی بنا پر ایسا ہی کرنا ضروری تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ کرتے تو یقیناً بہت سی مصلحتوں سے ملک،وطن، قوم اور اسلام کو محروم ہو نا پڑتااوراگر ایسا کرنا اس مصلح اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے منافی تھا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہو۔
مگر یہ موقع نہیں کہ اس موقع پر بحث کریں ۔ہم تواس وقت صرف اتنا بتانا چاہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کثیر المشاغل ہونےکے باوجود ازدواجی زندگی کس طرح بسر کی۔امت کے لیے اصلاح معاشرت کے متعلق کیا اسوۂ حسنہ پیش کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے ساتھ کس سلوک سے پیش آئےاورہمارے لیے کیا نمونہ قائم فرما گئے۔؟
ازواج رضی اللہ عنہن سے حسن سلوک
د نیا کہا کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو ایک ’’خوب صورت سانپ‘‘ بنا کر پیدا کیا ہے۔اور انسان کو ہوشیار کیا ہے کہ اس کی خوب صورتی کی طرف نہ دیکھے بلکہ اس کےزہرسے بچے۔مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے
|