نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قیدیوں کے ساتھ برتاؤ
عبدالمجید محمد حسین بلتستانی[1]
نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ رب العالمین نے سارے جہان کےلیے رحمت بناکر مبعوث کیاجیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾(الا ٔنبیاء:107)
’’اور ہم نےآپ کو نہیں بھیجامگرجہانوں کےلیےرحمت بنا کر‘‘ ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِطیبہ مکمل کی مکمل رحمت پر مبنی ہے،آپ کی ذات جس بھی کردار میں ہو وہ جہاں والوں کےلیےمرقعِ رحمت رہی ۔ اپنے ہوں یا اغیار سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کے معترف ہوئے۔ محض حالت امن میں نہیں بلکہ حالت جنگ میں دشمنوں کے ساتھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا حسنِ سلوک سرانجام دیا کہ ان میں بہت سے مسلمان ہوگئے ۔زیر نظر تحریرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگی قیدیوں کےساتھ سلوک کے مختلف پہلوؤں کو اجاگرکرنے کی سعی کی گئی ہے ۔آپ کی اس رحمت کے بنیادی طور پر دو پہلو تھے:
1. حالتِ جنگ میں دشمن کے ساتھ آپ کا حسنِ سلوک2. قیدیوں کےساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ سلوک
اسلام میں جنگ ایک اضطراری شکل ہے کہ جب دشمن امن سکون سے رہنے نہ دے،چھیڑچھاڑ کرےتوپھر آخری حربے کےطورپر جنگ جیساانتہائی قدم اٹھایاجاتاہے۔نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی بھی جنگیں کی ہیں ان میں پہل دشمنوں نے کی ہےاورآپ نے صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دفاع کےلیے ہتھیاراٹھایاہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
|