اعداء پر رحم
1.مکہ میں سخت قط پڑا،یہاں تک لوگوں نے مردار اور ہڈیاں تک کھانی شروع کردیں ۔ابو سفیان بن حرب(ان دنوں دشمن غالی تھا۔) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اورکہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو لوگوں کو صلہ رحم(حسن سلوک باقرابتداراں )کی تعلیم دیا کرتے ہیں۔دیکھیے آپ کی قوم ہلاک ہورہی ہے۔خدا سے دعا کیجیے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور خوب بارش ہوئی۔
2. ثمامہ رضی اللہ عنہ بن اثال نے نجد سے مکہ کو جانے والا غلہ بند کردیا۔اس لیے کہ اہل مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایسا کرنے سے منع فرمادیا۔
3. حدیبیہ کے میدان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ نمازِ صبح پڑھ رہے تھے ستر اسی آدمی چپکے سے کوہ تنعیم سے اترے تا کہ مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے قتل کردیں ۔یہ سب گرفتار ہوگئےاور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا کسی فدیہ یا سزا کے آزاد فرمادیا۔[1]
جود وکرم
1.سائل کو کبھی رد نہ فرماتے،زبانِ مبارک پر حرف انکار نہ لاتے اگر کچھ بھی دینے کو پاس نہ ہوتا و سائل سے عذر کرتے،گویا کوئی شخص معافی چاہتا ہے۔
2. ایک شخص نے آکر سوال کیا۔فرمایا میرے پاس تواس وقت کچھ نہیں ہے تم میرے قرض لے لو،میں پھر اسے اتاردوں گا۔عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا:خدا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تکلیف نہیں دی کہ قدرت سے بڑھ کر کام کریں ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم چُپ سے کرگئےایک انصاری نے پاس سے کہا،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیجیے۔رب العرش مالک ہے تنگ دستی کا کیا ڈر ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے،چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار آشکار ہوگئے۔فرمایا :ہاں ! مجھے یہی حکم ملاہے۔[2]
|