بنایا گیا۔خدا نے لوگوں کو اپنی بارگاہ میں بلانے کے لیے بھیجا ہے۔اس کے بعد یہ دعا فرمائی :’’اے خدا میری قوم کو ہدایت فرما۔وہ (مجھے) نہیں جانتے ہیں۔‘‘[1]
3. ایک درخت کے نیچے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سوگئے،تلوارشاخ سے آویزاں کردی،غورث بن الحراث آیا،تلوار نکال کرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گستاخانہ جگایا،بولا، اب تم کو کون بچائے گا۔فرمایا:اللہ!وہ چکر کھا کر گر پڑا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار اٹھالی ،فرمایا:اب تجھے کون بچاسکتا ہے۔وہ حیران ہوگیا۔فرمایا،جاؤمیں بدلہ نہیں لیا کرتا ۔[2]
4. ہبار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو نیزہ مارا،وہ ہودج سے نیچے گر گئیں ا ور حمل ساقط ہوگیااور بالآخر یہی صدمہ ان کی موت کا باعث ہوا۔ہبار نے عفو کی التجا کی اور اسے معاف فرمایا۔[3]
5.فرمایا زمانہ جاہلیت سے لے کر جن باتوں پرقبائل میں باہمی جنگ و جدل چلا آتا ہے ۔میں سب کو معدوم کرتا ہوں اور سب سے پہلے اپنےخاندان کے خون کا دعویٰ اوراپنے چچا کی رقوم قرضہ کو معاف کرتا ہوں ۔[4]
صدق وامانت
1. جانی دشمن بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اوصاف کے قائل تھے۔صادق وامین،بچپن ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب پڑگیا تھا۔انہی اوصاف کی وجہ سے قبل از نبوت بھی لوگ اپنے مقدمات کو انفصال کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس لایا کرتے تھے۔[5]
2.ایک روز ابو جہل نے کہا:محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میں تجھے جھوٹا نہیں سمجھتا۔لیکن تیری تعلیم پر میرا دل ہی نہیں ٹھہرتا۔[6]
|