Maktaba Wahhabi

90 - 195
وہ اسیران جنگ کے دوہی مصرف سمجھتے تھے۔یا تو انہیں قتل کردیتے یا غلام بنالیتے تھے۔مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں صورتوں کو ناپسند فرمایا۔اور ان سب قیدیوں کو یا تو مفت ہی چھوڑدیا یا معمولی فدیہ لے کر آزاد کردیا۔[1]اور یاد رکھنا چاہیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ہمایوں سے قبل کبھی بھی قیدیوں سے یہ سلوک نہ ہوا تھا۔بلکہ عرب چھوڑ کر ساری دنیا میں بھی یہ نہ ہوتا تھا۔اور ہر ملک میں اسیران جنگ کے ساتھ دو ہی سلوک کیے جاتے تھے،قتل یا غلامی۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آئین عرب میں اس نئے قانون کا اضافہ فرمایاکہ جنگی قیدیوں کو مفت کا فدیہ لے کر رہا کر دیا جائے یا تبادلہ کر لیا جائے ۔ آج بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا بلکہ اس قدر زیادتی اور بڑھ گئی ہے کہ تاوانِ جنگ ہزیمت خوردہ فریق پر اس قدر ڈال دیاجاتا ہے اور طرح طرح کی پابندیاں ایسی عائد کردی جاتی ہیں کہ پھر اس کا ترقی کرنا اورابھرنا محال ہوجاتا ہے ۔چنانچہ گزشتہ جنگ یورپ کا خاتمہ جن اندوہناک نتائج پر ہوا وہ عالم انسانیت کےلیے ہمیشہ وجہ ماتم بنا رہےگا۔جرمنی پر اس قدر تاوان عائد کیا گیااور ایسی شرائط اس پر لگا دی گئیں کہ شائد اب سو برس تک بمشکل پنپ سکے گا۔اور صرف یہی نہیں بلکہ کھربوں پونڈ تاوان بھی اس کے ذمہ ڈال دیاگیا۔ اور فوج پر پابندیاں لگادی گئیں کہ محدود تعداد سے زیادہ نہیں رکھ سکتا۔(یہ پہلی جنگ عظیم 1914ء کا تذکرہ ہے)۔ اس کے مقابلہ پرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک مخاطم وحریف فریق کے ساتھ دیکھو کسی جنگ میں بھی اس قسم کی پابندیاں عائد نہیں کی گئیں اور نہ ہی کسی سے تاوان جنگ وصول کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اسیرانِ جنگ سے مروت اسیرانِ جنگ کے ساتھ جو سلوک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تقریباً تمام قیدیوں کا رہا فرمادیا۔بعض سے برائے نام فدیہ لیااور بہتوں کافدیہ اپنے پاس سے ادافرما کر ان کو رہا کردیا۔اجمالی ذکر ملاحظہ ہو:
Flag Counter