آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ناراض ہوتو اپنا بستر اس سے الگ کرلے۔اور اسی پر اکتفا کرے۔نہ خود گھر سے نکلے نہ اسے گھر سے نکالے۔
ہاں کبھی اتنی ہی ناراضگی ہو کہ مارنے تک نوبت آجائے تو منہ پر نہ مارے۔[1]یعنی وحشیوں کی طرح نہ مارے۔گویا مارنے میں بھی احتیاط اور اعتدال کو پیش نظر رکھا۔
مگر بہتر یہی ہے کہ بغیر مارنےکے ہی اس کی اصلاح کردے۔[2]کیونکہ یہ پسلی کی ہڈی کی طرح ہے،اگر سیدھا کرو گےتو ٹوٹ جائے گی۔اس کو اسی اصلی حالت پر چھوڑ دو گے تو تنگ کرے گی۔[3]
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج رضی اللہ عنہن
ایک دفعہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی اہم معاملہ پر سب بیویوں سے ناراض ہوگئے اور سبھی سے اپنا بستر الگ کرلیا۔ایک ماہ کے بعدحضور صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوگئے۔ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نےمعذرت چاہی۔اور حکم الٰہی سے وہ معاملہ اختتام کو پہنچا۔[4]الغرض آپ کی ناراضگی جب بھی ہوئی دینی معاملات پر ہوئی جس میں درحقیقت ہمارے لیے ایک سبق مضمر ہے۔
اسی طرح بسا اوقات ازواج مطہرات میں سے کوئی بگڑ جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے مناتے۔اس منانے میں بھی عجیب شیرینی ہوتی۔
ایک دفعہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے كہا:’’حمیراء!تم جب ناراض ہوتی ہو تو میں فورا تمہارے غصے كو پہچان لیتا ہوں ۔‘‘
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا:’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے توکبھی آپ پر غصہ کا اظہار نہیں ہونے دیا۔پھر کس طرح آپ میری قلبی کیفیت کو پہچان لیتے ہیں ۔‘‘
|