جب ہم دنیا کے مختلف فاتحین کی سیرت پر ایک تنقیدی نظرڈالتے ہیں توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ایک ذات بابرکات ایسی دکھائی دیتی ہے جو صحیح معنوں میں اپنے اندر فاتحانہ شان رکھتی ہے،اور جملہ عیوب ونقائص سے مبرا نظر آتی ہے۔
عام فاتحین کا حال
آپ فاتحین عالم میں سے ایک ایک کی سوانح عمری دیکھیں ،اور ان کی خوب ورق گردانی کریں ۔مگر آپ کو ایک فاتح بھی ایسا نظر نہ آئےگاجس نےمفتوحین پر رحم وکرم کیا ہو،اور بجائے لوٹنے اور تباہ کرنے کے بخشش وسخاوت سے کام لیا ہو۔
ایک فاتح جب کسی علاقہ یا ملک کو فتح کرلیتا ہے تووہ کچھ انتقامی جذبات کےاثر سے اور کچھ ان پر پورا تسلط حاصل کرنےکےخیال سے،اپنی پوری قوت صرف کردیتاہے۔لوٹ مار کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔اور کشتوں کےپشتے لگ جاتے ہیں ۔
فاتحِ عرب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان
مگر حضرت رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحیمی ملاحظہ ہو۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شہر کو فتح کرتے ہیں ،جس سے بڑے جوروستم کے بعد نکالے گئے۔جس کے رہنے والوں نے آپ کو وہ وہ تکلیفیں اوراذیتیں پہنچائیں کہ الامان والحفیظ۔ جوسارے عرب کی قوت کا مرکزاور کفروالحاد کا منبع بناہوا تھا۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں اور غریب ساتھیوں پر وہ ظلم ہوئے تھے کہ آج ان کے ذکر سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ستم رسیدہ ساتھی دس ہزار کی تعداد میں اسے فتح کرنے کے لیےآرہے ہیں ۔
رحمت و رأفت کے آٹھ دروازے
آپ جانتے ہیں کہ وہ اس وقت کس قدر اپنے انتقام لینے پر تلے ہوئے ہوں گے ،اور مکہ والوں کو کچلنے اورفنا کرنے کا کیا کیا ارمان اپنے دل میں رکھتے ہوں گے۔بے شک آج مکہ کا فاتح محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی وامی)نہ ہوتا تو دس ہزار قدسی مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے۔ایک ایک کافر کے100،100 ٹکڑے
|