سبت(ہفتہ کے دن)کی عزت کیا کرتی ہیں ۔اور یہود کو عطیات دیا کرتی ہیں ۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کربھیجا۔انہوں نے کہا:
’’جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے جمعہ عطا فرمایا ہے سبت کو میں نے کبھی پسند نہیں کیا ۔رہے یہودی ان سے میرے قرابت کے تعلقات ہیں اور میں ضرور ان کوکچھ نہ کچھ دیتی ہوں ۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ جواب سن کر خاموش ہوگئے۔پھر ام المومنین رضی اللہ عنہا نے اس لونڈی سے پوچھا:’’تو نے شکایت کیوں کی؟‘‘
لونڈی نے اپنےقصور کا اعتراف کیا اورکہا:’’میں شیطان کے جھانسےمیں آگئی تھی۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’اچھا جاؤ میں نے تمہیں اللہ کی راہ میں آزاد کردیا۔‘‘[1]
سبحان اللہ !کیاشان عفو ہے کہ قصور وار کو بجائے سزا دینے کے الٹا آزاد کیا جارہا ہے!!
دراصل یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم ہی کا اثرتھا۔جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج رضی اللہ عنہن کےدل ودماغ میں قائم فرمادیا تھا۔
عورتوں کی اصلاح
گھروں میں کبھی نہ کبھی چپقلش کا ہونا بھی لازمی امر ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ جن میاں بیوی میں محبت حد سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے وہ بھی کسی نہ کسی وقت باہم روٹھ ہی بیٹھتے ہیں ۔بقول حالی مرحوم:
بگڑیں نہ بات بات پہ کیوں جانتے ہیں وہ
ہم وہ نہیں کہ ہم کو منایا نہ جائے گا
بھلا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کلیہ سے کس طرح مستثنیٰ رہ سکتے تھے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی جس نے دوسروں کے لیے نمونہ بننا تھااس چیز کا پایا جانا نہایت ضروری تھا۔چنانچہ کتب وتواریخ سے ہمیں صرف دو تین ہی ایسے واقعات مل سکتے ہیں ،جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا پتہ چلتا ہے۔اور لطف یہ کہ اس ناراضگی میں بھی سبق پایاجاتا تھا۔
|