Maktaba Wahhabi

93 - 195
غزوہ حنین کے قیدی سب سے زیادہ اور سب سے بڑی قیدیوں کی تعداد غزوہ حنین میں آئی تھی۔یعنی چھ ہزار مرد وزن اسیر ہوئے تھے۔جنگ ختم ہونے کے بعدحضور صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ کے قریب ہی قیام فرما تھے۔اور مال غنیمت کو تقسیم نہیں فرمایا تھا کہ قبیلہ ہوازن جس نے حملہ کیا تھا،اس کے چھ سردار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رحم کی درخواست پیش کی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حیات مکی کے زمانہ میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم دعوت اسلام کے لیےطائف تشریف لے گئےتوحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسائے تھے اور اس قدر سنگ باری کی تھی کہ جسم اطہر لہو لہان ہوگیا تھا۔اور پاؤں سے آپ نے جوتا اتارنا چاہا تو وہ خون سے جم گیااور پاؤں سے نہ اترتا تھا،ان سنگ دلوں نے اس قدر پتھر مارے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہوگئے تھےاورحضرت زید رضی اللہ عنہ اپنے کندھوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا کر لائے تھے۔بہرحال یہ لوگ تھے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے رحم کی اپیل کی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت ورأفت اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب سنو اور انصاف سے کہو کہ سوائے اس شخص کے جس کو حق تعالیٰ نے رحمت عالم وعالمیان بنا کر بھیجا ہواورجس کو رب العالمین نے رؤف رّحیم کے خطاب بلند سے مخاطب فرمایا ہو کوئی اور بھی ایسا جواب دے سکتا ہے۔؟ جب ان لوگوں نے رحم کی درخواست کی توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمہارا انتظار کر ہی رہا تھا۔‘‘ واقعہ یہ تھا کہ حصول فتح کے بعد دو ہفتہ تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انتظار میں مال غنیمت کو بھی تقسیم نہ فرمایا تھا ۔اور اسی جگہ قیام فرماتھے۔(اللہ اللہ! کیا شان رحمت ورأفت تھی کہ ان دشمنوں پر لطف و کرم فرمانےکےلیے جو جان کے دشمن اور خون کے پیاسے تھے،آپ انتظار فرمارہے تھے)۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:’’کہ میں اپنے حصہ کے اور اپنے خاندان کے حصہ کے قیدی بآسانی چھوڑ سکتا ہوں ۔اگر میرے ساتھ انصارومہاجر ہی ہوتے تو سب کو چھوڑدینا مشکل نہ تھا۔مگر تم دیکھتے
Flag Counter