نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا
غیر مسلموں ذمیوں اور معاہدین کے ساتھ رحمت بھرے سلوک کی ایک جھلک
جواد موسى المدنی [1]
بسم اللّٰہ والصلاة والسلام على رسول اللّٰہ وبعد!
قارئین کرام ! نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اخلاق اپنے کمال پر ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تمام اخلاق ِ حسنہ کا مجموعہ ہے اس لیے رب ِ ذو الجلا ل نے فرمایا:
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّہ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللّٰہ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللّٰہ كَثِيرًا﴾( سورة الا ٔحزاب : 21)
’’بلاشبہ یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔‘‘
لیکن اخلاق حميدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت ِ رحمت اپنے عروج پر ہے اور کیوں نہ ہو!
ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾( الا ٔنبياء: 107)
ترجمہ: ’’اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر جہانوں پر رحم کرتے ہوئے ۔‘‘
وہ رحمت کہ جس سے سب مستفید ہوئے ، کیا اپنے ،کیا پرائے،انس و جن ، مسلم غیر مسلم ، غلام و آزاد ،ذمی و معاہد،دوست و دشمن ،چرند و پرند،جماد و نبات ،غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت شاملہ و کاملہ سے سب مستفید ہوئے۔ اسی لیے اپنے تو اپنے غیروں کو بھی رحمت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کرنا پڑا۔
|