لیے یہ وقت خون خواری دکھانے کا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں تھے اور پوری طرح ان سے انتقام لیا جاسکتا تھا۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے تمام قصور معاف کردیے۔اور فوج اس قدر سکون کے ساتھ شہر میں داخل ہوئی کہ گویا نئی بات ہی نہ تھی۔اور نہ ہی کوئی گھر لوٹا گیا۔‘‘
’’ڈین پول‘‘ جیسا عیسائی مورخ کس حیرت سے لکھتا ہے کہ نہ کوئی گھر لوٹا گیا۔کیونکہ فتح کے موقع پر لوٹ مار اور کشت وخون ایک معمولی بات ہے جو عام طور پر فوجیوں کے ہاتھوں ہو ہی جاتی ہے۔
اسی طرح سرولیم میور جیسے مخالف کو بھی فتح مکہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو داد دینی پڑی ہے۔
فاتح عرب صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عام طور پر عادت مبارکہ تھی کہ جس علاقےکی طرف رخ کرتے اور جہاں داخل ہوتے، پہلےیہ دعا فرمایا کرتے:
’’اے اللہ !ہم تجھ سے اس بستی کی اور اس بستی میں رہنے والوں کی اور اس کی تمام چیزوں کی بھلائی چاہتے ہیں ۔اور ان سب چیزوں کی برائیوں سے پناہ مانگتےہیں ۔‘‘[1]
فاتح عرب صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی قوم کو ہدایت
پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول کو عملی جامہ پہنا کر بھی دکھادیتے،اور اپنی فوج کو حکم دیتے ہیں :
٭ قیام وہاں کرنا جہاں بستی والوں کو تمہاری وجہ سے تکلیف نہ ہو۔
٭ جو مقابلہ پر آئے اسےلڑنا۔
٭ بوڑھوں ،بچوں اور عورتوں پر ہرگز تلوار نہ اٹھانا۔
٭ گوشہ نشینوں ،عبادت خانوں میں بیٹھنے والوں کو نہ چھیڑنا۔
٭ جو اطاعت قبول کرےانہیں امان دینا۔
|