فرانسیسی مستشرق ’’ہنری لیمنس ‘‘ اپنی کتاب’’اسلام‘‘ میں لکھتا ہےکہ اگر ہم عمومی طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو دیکھتے ہیں تو انہیں خالص رحمت پاتے ہیں ۔ [1]
ایک او رجگہ اطالوی مستشرق لکھتی ہے: ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی درگزر کرنے والے تھے ، خاص طور پر دوسرے مذاہب کے پیروں کاروں کے ساتھ۔‘‘ [2]
اگر صرف غیر مسلموں کی گواہیوں کو جمع کیا جائے تورسول رحمت کے غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک پر ایک مستقل ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے۔مگر یہاں بطور مثالچند ذکر کررہے ہیں ،تمام چیزوں کااحاطہ مطلوب نہيں ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ِ رحمت غیر مسلموں کے ساتھ :
جیساکہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ رحمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا اہم اور غالب پہلو تھامگر وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن ’دعوۃ إلی اللّٰہ‘کے مخالف تھے اور انہوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا بلکہ مخالفت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف طریقوں سے تکالیف پہنچائی،ان کے ساتھ بھی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت کا معاملہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت شاملہ تھی وہ اپنو ں کے ساتھ ساتھ غیروں پر بلکہ وہ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا وتکالیف پہنچائی تھیں ان کو بھی رحمت کےساتھ تعامل فرماتے ۔
امی عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ یہودیوں کی ایک جماعت بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی او ر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنے کے بجائے ’ السام علیکم ‘یعنی تم پر ہلاکت ہو ، کہہ کر مخاطب کیا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں سمجھ گئی تو میں نے جواب دیا کہ تم پر ہلاکت اور بربادی ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہر جاؤ عائشہ ! اللہ سبحانہ و تعالیٰ نرمی کو پسند فرماتا ہے۔[3]
|