سبحان اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عنصر رحمت دیکھیں کہ نہ صرف غلط بات کہنے پر درگزر فرمایا بلکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب جواب دیا تو اس جواب میں بھی تلخی سے منع فرمایا اور ’وعلیکم‘ یعنی ’تم پر بھی ‘ کہنے پر اکتفا کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر مسلموں کے ساتھ رحمت کا معاملہ اس بات سے بھی واضح ہوتا ہےکہ وہ کفار اور غیر مسلم جنہوں نے وقتا فوقتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف پہنچائی تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف انہیں معاف فرمایا بلکہ ان کےساتھ ایسا رحمت کا معاملہ فرمایا کہ تاریخ ِانسانی میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی ۔
سہیل بن عمرو قریش کے اکابرین میں سے تھے اور ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے دور ِ جاہلیت میں اسلام اور مسلمانوں کو ایذاء پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔خود اپنی زبانی اس واقعے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ: ’’فتح مکہ کے روز میں نے خود کو اپنے گھر میں بند کرلیا اور میرے اکثر بیٹے فاتح مسلمان فوج میں شامل تھے اور مجھے اپنے پچھلے کرتوتوں کی وجہ سے امان کی کوئی امید نہ تھی کیوں کہ میں نے بدر ،اُحد اور حدیبیہ میں کفار کی طرف سے شرکت کی تھی ۔
کہتے ہیں میں نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن سہیل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ کیا کہ مجھے امان دی جائے جب عبد اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیاآپ انہیں امان دیتے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا تردد انہیں امان دیدی۔نَعَمْ، ہوَ آمن بِأَمَانِ اللّٰہ،[1]بلکہ ان کی پیرانہ سالی کا خیال رکھتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ حکم بھی دیا کہ کوئی بھی سہیل بن عمرو کی طرف نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھےگا۔‘‘
’مَنْ لَقِيَ سُھَيْلَ بْنَ عَمْرٍو فلاَ يَشُد النظَر إِلَيہ ‘[2]
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے رحمت کی اس بارش نے سہیل رضی اللہ عنہ کے بنجر دل پر اثر کیا اور آپ فوراً مسلمان ہوگئے۔‘‘
اسی طرح ایک اور موقع پر دیکھتے ہیں کہ فضالہ بن عمیرجن کی اسلام دشمنی کا اندازہ اس بات سے لگایا
|