آپ کے شانہ سے اتارلی۔جسم کے کپڑے پکڑ لیےاورٹرانے لگا کہ عبدالمطلب والے بڑے نادہند ہوتے ہیں ۔عمر فاروق رضی اللہ عنہ انے اسے سختی سےجھڑک دیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے،فرمایا:عمر رضی اللہ عنہ تمہیں لازم تھا کہ میرے ساتھ اوراس کے ساتھ اور طرح برتاؤ کرتے۔مجھے حسن ادائیگی کے لیے کہتے اور اسے حسن تقاضا سکھاتے۔پھر زید رضی اللہ عنہ کی جانب حضور مخاطب ہوئے۔فرمایا:ابھی تو وعدہ میں تین دن باقی ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:اس کا قرض ادا کردو،بیس صاع زیادہ بھی دینا کہ تم نے اسے دھمکایا اور ڈرایابھی تھا۔[1]
1.ایک اعرابی آیا،اس نے زور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو جوموٹے کنارے کی تھی،جھٹکا دیا وہ کنارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں گڑگیا اور نشان پڑگیا۔اعرابی نے اب زبان سے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ مالِ خدا جو تمہارے پاس ہے،وہ تیرا ہے اور نہ تیرے باپ کا ہے۔اس میں سے ایک بار شتر مجھے بھی دلاؤ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذرا خاموشی کے بعد فرمایا:مال بیشک خدا کا ہے اور میں اس کا غلام ہوں ،بالآخر حکم فرمایا:کہ ایک بار شتر جو اور بار شتر کھجوریں اسے دی جائیں ۔[2]
2.طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وعظ اور تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے،وہاں کے باشندوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کیچڑ پھینکی،آوازیں لگائے،اتنے پتھر مارے کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم لہو سے تربہ تر اور بیہوش ہوگئے،پھر بھی یہی فرمایا کہ میں ان لوگوں کی ہلاکت نہیں چاہتا،کیونکہ اگر یہ ایمان نہیں لاتے توامید ہے کہ ان کی اولاد مسلمان ہوجائے گی۔
عفو ورحم
1.عائشہ طیبہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی ذات مبارک کی بابت کسی سے انتقام نہیں لیا۔[3]
2. جنگ احد میں کافروں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت توڑے،سر پھوڑا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک غار میں بھی گر گئے۔صحابہ نے عرض کیا کہ ان پر بد دعا فرمائیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں لعنت کرنے کے لیے نبی نہیں
|