Maktaba Wahhabi

94 - 195
ہو کہ اس لشکر میں میرے ساتھ وہ لوگ بھی ہیں جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے۔اس لیے تم لوگ کل صبح نماز کے بعد آنا۔اور مجمع عام میں اپنی درخواست پیش کرنا،اس وقت کوئی صورت نکل آئے گی۔‘‘ چنانچہ دوسرے دن وہ سردار آئے،ان قیدیوں کی درخواست رحم پیش کی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ’’میں اپنے اور بنو عبدالمطلب کے حصے کے تمام قیدی بغیر کسی معاوضے کے آزاد کرتا ہوں ۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے یہ سن کر بھلا وہ انصارومہاجرین کس طرح انکارکرسکتے تھے،جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی پر جانیں قربان کیا کرتے تھے۔سب بول اٹھے: ’’ہم بھی اپنےاپنے قیدیوں کو بغیر کسی معاوضہ اور شرط کے آزاد کرتے ہیں ۔‘‘ اب وہ لوگ رہ گئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوگئےتھے۔اوران میں سے زیادہ تعدادغیر مسلموں کی تھی۔ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل بہت ہی عجیب وغریب معلوم ہوا کہ دشمن کے قیدیوں کو بلاشرط اوربغیر معاوضہ کر رہا کردیا جائے۔کیونکہ انہوں نے تو کبھی ساری عمر یہ طرز عمل دیکھا ہی نہ تھا۔وہ تو یہ جانتے تھے کہ کہ قیدی صرف اس لیے ہے کہ قتل کردیا جائےیا غلام بنا کر رکھا جائے،یا فروخت کر ڈالاجائے۔غرض یہ کہ ان لوگوں نے قیدیوں کو چھوڑنے سے انکار کردیا۔اس انکار کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا اور گفتگو کے بعد ہرایک قیدی کامعاوضہ چھ اونٹ قرار پایا۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فاتح اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سےان کی قیمت عطافرمادی۔اور اسی پر اکتفا نہیں فرمایا۔بلکہ ان تمام قیدیوں کو اپنے پاس سے چھ ہزار جوڑے مصری لباس کے پہناکررخصت فرمایا۔[1] حاتم طائی کی بیٹی سے سلوک 6.اسی طرح ایک جنگ میں حاتم طائی کی لڑکی گرفتار ہوکرآئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےا سے کمال عزت واحترام سے رکھا اور فرمایا کہ کوئی تمہارے شہر کا(باسی)آجائے توتمہیں اس کے ساتھ رخصت کردوں گا،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اور اس کے تمام خاندان کے قیدیوں کو رہا کردیا ۔[2]
Flag Counter