میں بیٹھاہےاسے قتل کرناجائزنہ ہوگاجیساکہ راہب وغیرہ. [1]
ان دلائل سے واضح ہواکہ جنگ میں بھی ان باتوں کا خیال کرناکتناضروری ہے۔
جنگی قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک :
جنگ میں رحمت اور حسنِ سلوک کا دوسرا پہلو قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کا ہے جس سے متاثر ہوکر قیدیوں کی ایک بڑی تعداد مسلمان بھی ہوئی ذیل کے نکات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کے پہلو کو اجاگر کیا جاتاہے ۔ واللّٰہ ولی التوفیق ۔
1.رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ثمامہ بن اثال سےسلوک
ثمامہ بن اثال جوکہ اپنے علاقے یمامہ کے سردار تھے مسلمانوں کوستانے میں پیش پیش تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خون کورائیگاں قرار دےکر ان کی گرفتاری کاحکم دیاہواتھا،یہ آپ کے بعض صحابہ کے ہاتھ لگ گئے جب یہ عمرہ کی نیت سے مکہ جارہے تھے ،اورانھیں لاکر مسجد نبوی کےستون سے باندھ دیا صبح کی نمازکےلیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے بعد نمازاس سے گفت وشنید کی اس نے بڑی نخوت کے ساتھ جواب دیا،یہ معاملہ تین دن تک چلتارہا اس دوران آپ نے صحابہ کو حکم دیاکہ اس کے مرتبے کامکمل خیال رکھتے ہوئےاس کا اکرام کیاجائےتیسرےدن آپ نے اسےبغیر کچھ کہے رہا کرنے کاحکم دیا،یہ مسجد سے نکلاقریب ایک جگہ سے غسل کیا اور پھر دین اسلام کو قبول کیا۔[2]
2.رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا عدی بن حاتم طائی کی بہن سےسلوک
رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کے لشکروں نے جب عدی بن حاتم طائی کے علاقے بنو طےپر یلغار کی تویہ عدی اپنے مال اسباب اہل وعیال سمیت نکل کھڑے ہوئے اور اپنی بہن کو بھول گئے جوکہ بعد میں قید ہوکر مدینہ لائی گئی،اس نے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ’’میں سردار قوم کی بیٹی ہوں میراباپ رحم وکرم میں مشہور تھا،بھوکوں کو کھاناکھلانااس کامشغلہ تھا،غریبوں پرشفقت کیاکرتاتھا،وہ فوت ہوگیا،بھائی
|