بےیارومددگارچھوڑ کربھاگ نکلا،آپ مجھ پر رحم کیجیے۔‘‘
آپ نے یہ سن کرفرمایاکہ تیرے باپ میں مؤمنوں والی صفات تھیں ۔اس کے بعد آپ نے اسے لباس زادِ راہ اورسواری عطاکرکے نہایت عزت واحترام کے ساتھ رخصت کیا۔[1]جوکہ بعد ازاں نہ صرف ان کے اسلام کا باعث بنا بلکہ ان کے بھائی عدی بن حاتم بھی مسلمان ہوگئے ۔ فللّٰہ الحمد والمنۃ
3.رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے قیدیوں کے ساتھ سلوک
بدرکی جنگ جب اپنے اختتام کوپہنچی سترصنادیدقریش قتل ہوئے اور اتنے ہی بطورقیدی گرفتارہوئےتورحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ودیگر صحابہ سے ان کے بارے میں مشورہ کیاکہ ’ماترون فی ھؤلاءالأساریٰ؟‘
ان قیدیوں کےبارے میں آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟
سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نے عرض کیاکہ اے اللہ کے نبی!یہ اپنی ہی برادری کے لوگ اوراپنے خاندان کے ہیں ،میری رائے یہ ہے کہ انھیں فدیہ لے کر چھوڑ دیاجائے،اس طرح ہمیں کافروں پر قوت وفوقیت حاصل ہوگی،پھر یہ بھی ممکن ہے اللہ تعالیٰ انھیں اسلام کی توفیق سے بھی نواز دے۔
اس کے بعد رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے ان کی رائے طلب فرمائی ، انھوں نے عرضٗ کیا:میری وہ رائے نہیں جو ابوبکرکی رائےہے،میری رائے یہ ہے کہ آپ ان قیدیوں کو ہمارے حوالے کردیں تاکہ ہم ان کی گردنیں ماریں ،عقیل کو علی کے حوالے کریں تاکہ وہ اس کاسر قلم کریں ،میرافلاں قریبی میرے حوالے کریں تاکہ میں اس کی گردن اڑاؤں ،یہ لوگ کفر کے سرغنے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری رائے کی بجائے ابوبکرکی رائے قبول کرتےہوئے انھیں فدیہ کےبدلے آزاد کرنے کافیصلہ کرلیا،دوسرے دن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہواتوتودیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر بیٹھے رو رہے ہیں میں نے عرض کیاکہ آپ اور ابوبکرکس بات پر رورہےہیں ؟اگرمجھے بھی روناآیاتو میں بھی روؤں گا ورنہ رونے والی شکل ہی بنالوں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|