اسلام کی دعوت دی تو اس بچے نے اپنے والد سے اجازت طلب کی اس پراس کے باپ نے کہا’اطع أبا القاسم‘’’ابو قاسم کی اطاعت کرو‘‘اور وہ بچہ اسلام لے آیااور بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے یہ کہتے ہوئے روانہ ہوئے کہ
’الْحَمْدُ للّٰہ الّذِي أَنقَذَہ مِنَ النّار ‘[1]
’’الحمد للہ ! اللہ تعالیٰ نے اسے آگ سے بچا لیا۔‘‘
اس واقعے سے جہاں ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر مسلموں ، بچوں ،خادموں کے ساتھ شفقت و رحمت کا سبق ملتا ہے وہیں ہمیں دعوت دین کا نبوی منہج بھی ملتا ہے کہ دعوت کے کام میں کبھی ناامید نہیں ہونا چاہیےاور نہ کسی کو حقیر جاننا چاہیےبلکہ دین کی دعوت ہر وقت ہر موقع پر احسن انداز میں پہنچانی چاہیے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمیوں اور معاہدین کے ساتھ رحمت !
جہاں عمومی طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانوں بلکہ تمام کائنات کے ساتھ رحمت کا معاملہ فرمایا وہیں ذمیوں اور معاہدین پر بھی رحمت کامعاملہ فرماتے تھے۔
ذمی كي تعریف : وہ غیر مسلم جو اسلامی سلطنت میں رہےاور جزیہ ادا کرے ۔[2]
معاہد كى تعريف : وہ غیر مسلم جو حاکم کی یا اس کے نائب کی اجازت (امان) کے بعد ملک میں داخل ہوتا ہے ۔[3]
اس کی موجودہ مثال ویزہ حاصل کر کے ملک میں داخل ہونے والے غیر مسلم ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت ان ذمیوں اور معاہدین کے لئے بھی عام تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف زندہ بلکہ معاہد کے جنازے کا احترام کر کے رہتی دنیا تک کے لئے عظیم مثال قائم کردی۔
ابن ابی لیلیٰ روایت کر تے ہیں کہ قیس بن سعد اور سہل بن حنیف قادسیہ میں تھے کہ وہاں سے جنازہ گزرا تو وہ دونوں کھڑے ہوگئے جنازے کے احترام میں انہیں بتایا کہ جنازہ مقامی (غیر مسلم ) کا ہے تو دونوں نے بیان
|