Maktaba Wahhabi

166 - 195
کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے جنازہ گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے آپ کو بتایاگیا کہ یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’کیا وہ نفس نہیں تھا ۔‘‘[1] سبحان اللہ ! نفس ِ انسانی کا اتنا احترام اور آج ہمارے معاشرے میں اتنی بے وقعتی ہوچکی ہے کہ مسلمان کا جنازہ گزر رہا ہوتا ہے اور کھڑا ہونا تو درکنار کچھ لمحے ٹھہرنا بھی ہم پر دشوار ہوتا ہے ۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدین اور ذمیین کے لئے رحمت ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد ِ مبارکہ سے بھی نظر آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جان کی حفاظت فرمائی اور ارشاد فرمایا:’مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاہدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَہا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا۔‘[2] ’’ یعنی جس نے کسی معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو تک کو نہ پاسکے گاجبکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے آتی ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ خود رحمت کا معاملہ ذمیوں اور معاہدین کے ساتھ رکھا بلکہ اپنی امت کو بھی اس کی تلقین کی اور ان معاہدین کے ساتھ اچھے اخلا ق کا برتاؤ کیا ان کی دعوت کو قبول کیا انہیں تحائف پیشکئے اوران کے تحائف کو قبول کیا۔ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دن مسجد نبوی کے دروازے پر (ریشم کا) دھاری دار جوڑا بکتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بہتر ہو اگر آپ اسے خرید لیں اور جمعہ کے دن اور زیارت کے لئے آنے والے وفود کے استقبال کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہنا کریں ۔اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔‘‘ اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح کے کچھ جوڑے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک جوڑاعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو عطافرمایا۔ انہوں نے عرض کیا:’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے یہ جوڑا پہنا رہے ہیں حالانکہ اس سے پہلے عطارد کے جوڑے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا فرمایا تھا۔‘‘رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اسے تمہیں خود
Flag Counter