پہننےکے لیے نہیں دیا چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو پہنادیا جو مکے میں رہتا تھا ۔ [1]
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس واقعے میں دلیل ہے کہ کافر رشتے داروں سے صلہ رحمی اور ان کے ساتھ احسان کرنا اور انہیں ہدیہ پیش کرنا جائز ہے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معاہدین کی دعوت قبول کیا کرتے تھے اس کا ثبوت ہمیں ا س واقعے سے ملتا ہے کہ غزوہ خیبر میں جب مسلمان فتح یاب ہوگئے اوریہودیوں سے معاہدہ ہوگیا اس موقعے پر ایک یہودی عورت زینب بنت الحارث بن سلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضیافت کا اہتمام کیا اور اس میں اس بدبخت عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہرآلود بکرے کا گوشت پیش کیا ۔[2]آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معلوم ہوجانے پر اس عورت کو معاف کردیا۔ اس سے زیادہ اور عظیم رحمت کا مظہر ہمیں انسانی تاریخ میں کہیں نہیں مل سکتا۔
معاہدین اور ذمیین کے حقوق کی اس سے زیادہ اور کیا حفاطت ہوگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’اتقوا دعوة المظلوم ، وان كان كافرا ، فانہ ليس دونھا حجاب‘[3]
’’یعنی مظلوم کی بددعاسے بچو، چاہے وہ كافر ہي كيوں نہ ہو ، کیونکہ اللہ اور اس کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ ‘‘
اور رحمت کی اس سے اعلیٰ کوئی مثال ہوسکتی ہے ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
’أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاہدًا أَوْ انْتَقَصَہ أَوْ كَلَّفَہ فَوْقَ طَاقَتِہ أَوْ أَخَذَ مِنْہ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيجُہ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ‘[4]
|