Maktaba Wahhabi

168 - 195
’’خبردار ! جس کسی نے کسی عہد والے ( ذمی ) پر ظلم کیا یا اس کی تنقیص کی ( یعنی اس کے حق میں کمی کی ) یا اس کی ہمت سے بڑھ کے اسے کسی بات کا مکلف کیا یا اس کی دلی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز لی تو قیامت کے روز میں اس کی طرف سے جھگڑا کروں گا ۔ “ اس معنیٰ کا ایک اور قصہ سیرت طیبہ سے ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کرلیا اور انہیں امان دے دی تو مسلمانوں نے ان کے کھیتوں اور باغوں میں جانا شروع کردیا تو یہودیوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع فرمایا اور نصیحت کی کہ ’’ہم نے ان کے خون ، ان کے اموال اور ان کی زمینوں وغیرہ کو امان دے رکھی ہے کیونکہ ہم نے ان سے (مزارعت ) کا معاملہ کرلیا ہے لہٰذا معاہدین کے اموال ان کی بغیر اجازت حلال نہیں ۔‘‘ اس کے بعد صحابہ کرام رضى اللہ عنہم محتاط ہوگئے کہ وہ بغیر قیمت یہود کے باغ کے پھل کو ہاتھ تک نہ لگاتے ۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں سے کچھ رحمت کے نمونے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ساتھ روا رکھے اور یہود و نصاریٰ معاہدین و ذمیین ان سے فائدہ اٹھاتے رہے ،اسی لئے ربِ ذوالجلال نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾( الا ٔنبياء: 107) ترجمہ: ’’اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر جہانوں پر رحم کرتے ہوئے ‘‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ربِ ذوالجلال عام مسلمانوں کو اس اخلاق نبوی سے آراستہ و پیراستہ فرمائے ۔ آمین وصلى اللّٰہ عليہ وسلم على نبينا محمد وعلى آلہ و صحبہ أجمعين.
Flag Counter